ایک رومانوی داستان کے خدو خال 

1935کا دور ہے اور شمالی وزیرستان میں امن عامہ کا یہ عالم تھا کہ میر علی شمالی وزیرستان میں کجھوری کے مقام پر واقع ایک  قلعے میں تعینات گورے فوجی  بغیر کسی خوف و خطر بنوں آتے جاتے وہ اکثر بنوں چھاؤنی  میں واقع ریگل سینما میں انگریزی فلم کا آخری شو دیکھنے کے بعد آدھی رات کو اپنی موٹر سائیکلوں پر واپس کجھوری میں واقع اپنے قلعے میں بغیر کسی خوف و خطر آتے،یہ قلعہ آج بھی موجود ہے۔ اس دوران ایک ایساواقعہ رونماہوا کہ جس نے پورے وزیرستان یعنی شمالی وزیرستان اور اس سے ملحقہ جنوبی وزیرستان  میں فرنگیوں کا جینا حرام کر دیا۔ہوا یوں کہ بنوں کے ایک گاؤں میں رامچکوری نامی ایک ہندو دوشیزہ ایک مسلمان کے عشق میں گرفتار ہوئی اور اسلام قبول کر کے اس سے شادی کر لی اس کا اسلامی نام اسلام بی بی رکھ دیا گیا۔ اس کی والدہ نے اسوقت کے مقامی انگریزافسران کو شکایت کر دی،چنانچہ اس لڑکی کو بر آمد کر کے اس کی ماں کے حوالے کیا گیا اور اسکے شوہر کے خلاف اغوا،کا پرچہ کاٹ لیا گیا۔اسکی ماں نے اس کا نام دوبارہ رام چکوری رکھ دیا اور ڈر کے مارے بنوں چھوڑ کر امرتسر چلی گئی اور پھر اس کا پتہ نہ چل سکا کہ اس کا پھر کیا حشر ہوا۔ادھر جب وہ لڑکا جس پر اغواکاالزام تھا قید کاٹ کر جیل سے باہر آیاتو وہ رام چکوری کی تلاش میں امرتسر کی طرف نکل کھڑاہوا اور اسکا بھی پھر کوئی نام ونشان نہیں مل سکا۔یہ تمہید اس واقعے کو لکھنے سے پہلے ضروری تھی جس کا کہ اب ہم ذکر کرنے جا رہے ہیں۔ فقیر آف ایپی کا نام تو آپ نے ضرور پڑھا ہوگاان کا اصلی نام تھا مرزا علی خان اور ان کا تعلق تھا شمالی وزیرستان کے ایک قبیلے طوری خیل وزیر سے۔ان کا خیبرپختونخوا کی تاریخ میں انگریزوں کے خلاف لڑنے والوں میں ایک اہم کردار رہا ہے۔ بنوں اور اس کے گردونواح میں بسنے والے لوگوں نے اس بات پر اپنے غم اور غصے کا اظہار کیا کہ فرنگیوں نے کیوں ایک ہندو لڑکی جو کہ مسلمان ہو چکی تھی اسے دوبارہ ہندو دھرم میں جانے دیا اس خفگی کے جذبات کو فقیر آف ایپی نے فرنگیوں کے خلاف ایک سیاسی اور عسکری تحریک کا رنگ دیااور ان کے خلاف وزیرستان میں ایک عسکری تحریک چلانا شروع کی جس کے باعث یہاں سے انگریزوں کے پاؤں اکھڑنے لگے۔ فرنگیوں اور فقیر آف ایپی کے لشکریوں کے درمیان 1947 تک وزیرستان میں مسلح جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ فقیر آف ایپی کی مستقل پناہ گاہ یوں تو گرویکت کے پہاڑی علاقوں میں تھی کہ جہاں فرنگیوں کی رسائی آسان نہ تھی پر وہ ہر رات مختلف جگہوں پر گزارتے تاکہ وہ فرنگیوں کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔ایپی  میر علی سب ڈویژن کے ایک گاؤں کا نام ہے چونکہ مرزا علی خان نے اپنی زندگی کا ایک بڑھا حصہ اس گاؤں میں گزارا اس لئے  انہیں فقیر آف ایپی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔