کھیل کھیل میں     

بچوں نے اودھم مچا رکھا تھا۔ہلا گلہ اور شور شرابا تھا۔ میں گلی میں سے گزرا تو گولی کی طرح ایک بچے کے ہاتھ سے نکلتا اور جھومتا ہوا بال میرے پاس سے گزر گیا۔خیر میں تو بچ گیا اور پھر میں نے ان سے کچھ اعتراض بھی نہ کیا۔ کیونکہ فضول اپنے الفاظ ضائع کرنے سے کوئی فائدہ نہ تھا۔ انھوں نے باز بھی نہیں آنا تھا۔پھر میری آواز پر کان بھی تو نہیں دھرنا۔ کیونکہ یہ کھیل ہم نے بھی کھیلے ہیں۔پھر اس عمر سے ہم بھی گزر کر بڑھاپے کی دہلیز میں قدم رکھ چکے ہیں۔بس وہی کھیل جو ہم کھیلا کرتے تھے وہ اب بھی سارے ہیں اور گلی گلی ہر علاقے میں کھیلے جاتے ہیں۔ بلکہ ہم نے تو اپنے بچپن میں گیٹی چھپانا جمعرات اور چینجو غرض ہر کھیل ہماری فراغت کی گھڑی میں تڑپ رہا ہوتا تھا۔یہ پیٹوگر م تھا۔ جب ایک دوسرے کو بال گھما کر او رخوب تیزی سے مارتے ہیں۔تیزی سے اس لئے کہ بال تھرو میں آہستگی کی وجہ سے جھول ہوا تو نشانے پر نہیں لگے گا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ انھوں نے ہماری آنکھ نہیں پھوڑ دی۔کیونکہ ان قسم کے کھیلوں میں اچانک کے حادثات بھی پیش آ جاتے ہیں۔بلکہ میرے ایک کزن کی آنکھ اس وقت جوانی میں بینائی سے خالی ہے۔وجہ یہ کہ بچپن میں گلی میں بچے کیچ کیچ کھیل رہے تھے۔ دور سے بال پھینکتے اور دوسرا بند کیچ کرتا۔یہ بیچارا ایک گھر کی تھلی پر بیٹھا تھا۔وہ ایک کیچ کرنے والے کے پیچھے بیٹھا تھا۔ اس بار تو بچہ دور گلی کے پرلے کنارے سے ہوا میں گھومتے جھومتے آتے ہوئے بال کو کیچ تو نہ کرسکا مگر وہ بال پیچھے بیٹھے ہوئے غلام نبی کی آنکھ میں جا لگا۔بس پھر کیاتھا نتیجہ یہ کہ اس وقت تو اس کی آنکھ کو سب نے مل کر ٹکور دی او رسہلایا مگر کچھ دنوں میں جب اس کی آنکھ کادرد نہ گیاتو ڈاکٹر نے بتلایا کہ اس کی آنکھ تو ضائع ہو گئی ہے۔بچے دوسرے تو کیا خود اپنی جان کے دشمن ہوتے ہیں۔کھیل کھیل میں دوسرے کو تونقصان پہنچا دیتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو بھی کسی طریقے سے معذور کر لیتے ہیں۔بلکہ جاتے جاتے جان ہی سے چلے جاتے ہیں۔فیض کا شعر یاد آیا ہے اور کیوں یاد آیا ہے وہ بھی آپ کو بتلاتا ہوں۔شعر ہے کہ ”مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں۔جوئے کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے“۔ بس یہ دعا ہے اولاد کا دکھ کسی کو نہ ملے۔کیونکہ یہ وہ غم ہے جو زندگی بھر ساتھ رہتا ہے اور جب تلک بندہ زمین میں نہ اتر جائے اوپر زمین پر یہ دکھ ہر جگہ سر پر کانٹے چبھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اور کسی دوسرے کو اس کا پتا بھی نہیں چل پاتا۔ کیونکہ ”در پہ آج اس کے آزمائی ہے۔وہی جائے کہ جس کی آئی ہے“۔پھر بچے نا سمجھ ہوتے ہیں،ایک بلڈنگ سے دوسری بلڈنگ تک چھلانگ لگانے کی ہیرو کی نقل اتارنے کی کوشش کرنے میں سپائڈر مین فلم کو دیکھ کر کتنے ہی بچے جان سے گئے‘ سکس ملین ڈالر مین فلم لگا کرتی تھی اس کے ہیرو کی نقل میں کتنے بچے اوپر سے گر کر ہیرو کی طرح بچ نہیں پائے اور ننھے معصوم پھول ہمیشہ کے لئے کملا گئے۔ اپنے بچے کی بات کر رہاتھا تیس سال پہلے کی بات ہے وہ نو سال کا تھا۔ ایک فلم تھی جو بہت مقبول ہوئی تھی۔فیضان اس ہیرو کے ڈانس کرنے سے بہت متاثر تھا اور بار بار وی سی آر پر اس کا وہ سین دیکھتا تھا جسں میں ہیرو کو اس کے دشمن پھانسی کی رسی پرلٹکاتے ہیں۔ مگر ہیرو کے ساتھی اپنا خالی گھوڑا بھیج کر اس لٹکتے ہوئے ہیرو کے نیچے سے گزارتے ہیں۔ یہاں وہ دوست ایک حکمت عملی کے تحت دورسے پھانسی کی رسی کو فائر کر کے توڑ دیتے ہیں۔ یوں وہ ہیرو نیچے سے گزرنے والے گھوڑے پر آن گرتا ہے او ربچ جاتا ہے۔یہ الو سمجھا کہ میں بھی اس طرح بچ جاؤں گا اور اگلی فلم میں ہیرو کی طرح دوبارہ آجاؤں گا۔ مگر فلمی دنیااور ہمارے والی دنیااور ہے۔ یہاں سے جانے والا دوسری بار اس دنیا کی سکرین پر کبھی نمودار نہیں ہوتا۔ہائے وہ اس رسی پر جھول گیا تھا کیونکہ اس کے پاؤں زمین کو چھو نہ سکے۔ پھر اکیلے گھر میں چھوٹے بھائی کے علاوہ اور کوئی بھی ساتھ نہ تھا جو اس کو بچا لیتا۔ وہ ہیرو آج بھی تیس سال گزرنے کے بعد فلموں میں آتا جاتا ہے مگر میرا بچہ ہم سے ہمیشہ کے لئے الگ ہو گیا۔اس طرح کے کتنے ہی کیس اب تک ہو چکے ہیں۔بندہ بچو ں کے ساتھ ساتھ تو نہیں گھوم پھر سکتا۔بچے کبھی کس گلی میں لوگوں کے گلے شکوے لے کر آتے ہیں اور کبھی کس گلی میں کوئی نہ کوئی شرارت کر کے ماں باپ کو سبک کروادیتے ہیں۔بچوں کی حفاظت ماں باپ نہیں کر سکتے بس قدرت ہی ان کاخیال کرتی ہے۔کتنے ہی بچے سکول جاتے جاتے بارش کے دوران میں بجلی کے کھمبوں کو خواہ مخواہ ہاتھ لگا کر چلتے ہیں۔اس کے نتیجے میں کرنٹ لگنے سے کتنے ہمیشہ کے لئے سکول تو کیا دنیا ہی سے چھٹی کر گئے ہیں۔