قدرت اللہ شہاب کا شمار ان لکھاریوں میں ہوتا ہے جنہیں نہ صرف قلم کے ذریعے اپنے خیالات اور جذبات کو قارئین تک پہنچانے میں مہارت حاصل ہے بلکہ وہ اپنی طویل بیورو کریٹ زندگی میں اہم ترین مناصب پر فائز رہے اس لئے ان کی یادداشتیں کئی حوالوں سے اہم ہیں ایک مقام پر قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں ایک آفیسر میاں محمد سعیدکو راولپنڈی سے پچاس ہزار روپے کی رقم دیکر تنخواہیں تقسیم کرنے کیلئے پلندری بھیجا گیا سڑک بھی خراب تھی اور بارش بھی موسلادھار برس رہی تھی آزاد کشمیر کے علاقے میں جیپ پھسل کر ایک گہری کھڈ میں جاگری‘ میاں سعید کو نہایت شدید زخم آئے اور بہت سی ہڈیاں بھی ٹوٹ گئیں‘اپنی تکلیف بھلا کر انہوں نے پچاس ہزار روپے کی رقم کا بیگ اپنی بغل میں دبایا اور اس کی حفاظت کیلئے مستعد ہوکر بیٹھ گئے‘ حادثہ کی خبر سن کر آس پاس کے بہت سے دیہاتی بھی جائے وقوعہ پر جمع ہو گئے‘انہیں جب معلوم ہوا کہ شدید زخموں کے باوجود میاں صاحب سرکاری رقم کی حفاظت کی وجہ سے پریشان ہیں تو سب نے مل کر بہ یک آواز درخواست کی کہ وہ آرام سے لیٹ جائیں‘ یہ رقم بیت المال کی امانت ہے‘ اس کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے‘ کئی گھنٹوں کے بعد جب ایک امدادی ٹیم وہاں پہنچی تو میاں صاحب زخموں کی تاب نہ لاکر نڈھال ہو چکے تھے اور سرکاری رقم دیہاتیوں کی حفاظت میں جوں کی توں موجود تھی۔جس مقام پر اب منگلا ڈیم واقع ہے وہاں پر پہلے میر پور کا پرانا شہر آباد تھا‘ایک روز میں ایک مقامی افسر کو اپنی جیپ میں بٹھائے اس کے گردونواح میں گھوم رہا تھا‘راستے میں ایک مفلوک الحال بوڑھا اور اس کی بیوی ایک گدھے کو ہانکتے ہوئے سڑک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے‘دونوں کے کپڑے میلے کچیلے اور پھٹے پرانے تھے‘ دونوں کے جوتے بھی ٹوٹے پھوٹے تھے‘ انہوں نے اشارے سے ہماری جیپ کو روک کر دریافت کیا”بیت المال کس طرف ہے؟“آزاد کشمیر میں سرکاری خزانے کو بیت المال ہی کہاجاتا تھا‘میں نے پوچھا ”بیت المال میں تمہارا کیا کام؟“بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا”میں نے اپنی بیوی کیساتھ مل کر میرپور شہر کے ملبے کو کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں اب انہیں اس کھوتی پر لاد کر ہم بیت المال میں جمع کرانے جارہے ہیں“آج بھی جب وہ نحیف ونزار اور مفلوک الحال جوڑا مجھے یاد آتا ہے تو سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتا ہے کہ جیپ کے اندر میں ان دونوں کے برابر کیوں بیٹھا رہا‘مجھے تو چاہئے تھا کہ میں ان کے گرد آلود پاؤں اپنی آنکھوں اور سر پر رکھ کر بیٹھوں‘ ایسے پاکیزہ سیرت لوگ پھر کہاں ملے ہیں؟ اب انہیں ڈھونڈچراغ رخ زیبا لے کر!۔”اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ فرض شناسی کی وہ صفت ہے جس کی کسی بھی معاشرے میں اشد ضرورت ہوتی ہے اور اس کی کمی انگنت مسائل کا سبب بنتی ہے دیکھا جائے تو اس آئینے میں ہمارا معاشرہ کئی طرح کی کمزوریوں کا شکار نظر آئے گااس کا مطلب یہ نہیں کہ فرض شناسی کا جذبہ سرے سے ختم ہوگیا ہے بلکہ اس جذبہ کے حامل لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے۔