بول چال میں مشکل درپیش ہونے کے مرض کو ’آٹزم‘ کہا جاتا ہے۔ اِس مرض میں مبتلا افراد جسمانی طور پر (بظاہر) تندرست ہوتے ہیں لیکن اُن کی گویائی اور اظہار میں مشکلات کی وجہ سے وہ ایک خاص قسم کی معذوری سے دوچار ہوتے ہیں اور دنیا بھر میں اِس مرض سے متاثرہ افراد کی مدد کے لئے حکومت اور غیرحکومتی تنظیمیں کام کرتی ہیں۔ آٹزم کے بارے میں شعور اُجاگر کرنا بھی اِنہی کوششوں کا حصہ ہوتا ہے لیکن پاکستان میں اِس حوالے سے بہت ہی کم توجہ دی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی آٹزم کے مریض پائے جاتے ہیں جن میں تشخیص و غیر تشخیص شدہ افراد شامل ہوتے ہیں جو زندگی کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ ’پاکستان آٹزم سوسائٹی‘ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ’آٹزم‘ میں مبتلا افراد اور خاندانوں کو مدد اور طبی مشورہ دیا جاتا ہے تاہم وسائل محدود ہیں اور زیادہ مریضوں تک رسائی نہیں ہو سکتی۔ پاکستان میں کم از کم چار لاکھ بچے آٹزم کا شکار ہیں۔ آٹزم کے ساتھ رہنے والے لوگوں کی صحیح تعداد واضح نہیں۔ اِس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سے لوگ معاشرتی بدنامی‘ آٹزم اور دیگر خرابیوں کے بارے میں آگاہی کی عام ہے اور شعور کی کمی کی وجہ سے کسی بھی قسم کے اعصابی امراض کی اطلاع نہیں دیتے ہیں جو معاشرتی مہارتوں، اور تقریر اور غیر زبانی مواصلات کے ساتھ چیلنجوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں، آٹزم کی علامات بچے کی عمر سے پہلے ظاہر ہوتی ہیں اور اسے زندگی بھر کے لئے متاثر کرسکتی ہیں۔ آٹزم کی نوعیت انفرادی طور پر اس قدر مختلف ہوتی ہے کہ حالیہ برسوں میں اسے آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر (اے ایس ڈی) کو آٹزم کی تعریف کرنے کا بہتر طریقہ قرار دیا گیا ہے اگرچہ بہت سے ’آٹسٹک افراد‘ اکثر سماجی روابط قائم کرنے میں جدوجہد کرتے ہیں اور تقریر اور دیگر افعال کی انجام دہی میں جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اِس مرض سے متاثرہ بہت سے لوگ معمول کی زندگی بسر کرتے ہوئے کارہائے نمایاں بھی سرانجام دیتے ہیں۔ پاکستان میں‘ اس عارضے کے ساتھ رہنے والے بچوں کی ضروریات کے بارے میں بہت کم توجہ یا مدد دی جاتی ہے بلکہ اِس مرض کو تسلیم بھی نہیں کیا جاتا۔ آٹزم سے متاثرہ بچوں کو معمول کی تعلیم دے کر زندگی کی کوششوں میں حصہ لینا چاہئے۔ اگر جملہ نفسیاتی امراض کے شکار بچوں کو مناسب توجہ دی جائے تو اِن کے بول چال میں مشکل اور تنہائی پسندی کو دور کیا جا سکتا ہے۔ نفسیاتی امراض سے دوچار بچے اور بڑے بھی ہماری آبادی ہی کا حصہ ہیں اور اِنہیں زندگی بسر کرنے کے لئے جدوجہد میں سہارے کی ضرورت ہے کیونکہ ہر مرض قابل علاج ہوتا ہے اور اِس کا مریض قابل نفرت نہیں ہوتا۔ ملک میں آٹزم کے بارے میں شعور اُجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو نفسیاتی مریضوں کی درست تعداد معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔