مصنوعی مہنگائی

کہتے ہیں خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔روزے آتے ہیں تو ان کی تو چاندی ہو جاتی ہے۔ ایک مصنوعی مہنگائی کا ڈھول بجنے لگتا ہے۔اب نئے کپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں جانا اور کس کے لئے جانا۔کیونکہ نئے کپڑے ہی سلوانا تو کیا خریدنا ہی گراں ٹھہرا ہے۔ پھر لوگ تو اب  سستے  بازاروں اور دوسرے شاپنگ کے مقامات کا رخ کر کے پرانے کپڑے خرید رہے ہیں۔ پھر درزیوں نے ایک سوٹ کے دوہزار روپے نرخ ازخود مقرر کر دیئے ہیں۔یہ لہر نہیں آئی ہوئی مہنگائی کی لہر از خود لائی گئی ہے۔پرانے سستے سٹاک کو نئے نرخوں پر مہنگافروخت کر نا تو اب مصنوعی مہنگائی ہی ہے۔مرغی جو کم پروازہوتی ہے اس کی اتنی اونچی اُڑان کہ ڈالر کے ساتھ ساتھ اُڑنے لگی ہے۔پہلے مرغی دانہ دستیاب نہ ہونے کے سبب دس دن قبل سستی ہوئی اور پھر سے مہنگی ہو کر دسترس سے باہر جا چکی ہے۔کم از کم کمزور مرغی ہزارکے نرخ پر پھر پہنچ چکی ہے۔اس کے پر کبھی کٹ جاتے ہیں اور کبھی اس کے پروں کے ساتھ مصنوعی پرلگا کراس کو اونچی اُڑان پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔اتنا کہ ہاتھ سے اڑجانے والے کبوتر کی طرح پھر اس کو تلاش کرو تو نہ ملے۔وہاں پھلوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔کیلے ایک سستا ترین آئٹم تھا جو حال ہی میں مہنگاہوا اور اب وہ ڈیڑھ سو روپے میں دو درجن کیلے اچھے سے اور زیادہ اچھے نہیں مگر مل جاتے۔ مگر اب تو پتلے سوکھے مرجھائے اور کالے  کیلے اڑھائی سو روپے درجن مل رہے ہیں۔گھر والوں نے کہا کبھی کیلے ہی لے آیا کرو خالی ہاتھ آتے ہو۔مجھے تب چڑھی۔میں نے کہا پہلے کیلے نہیں لایا کرتا تھا کیا۔پھر پوچھا گیا‘کیوں کیلے کون سے مہنگے ہیں۔ہا ہا ہا میں نے کہا جاؤ ذرا بازار میں کھڑے ہو کر پھلوں کی قیمتیں دریافت کرو لگ پتا جائے گا کہ انھی پیسوں میں کہ آدھ پاؤ سیاہ خشک چائے خریدوں یا کیلے خرید فرماؤں۔اب بعض جگہ تو کہتے ہیں کہ مٹیریل مہنگا ہے اس لئے ہم مہنگائی کر نے پر مجبور ہیں مگر بعض جگہ مٹیریل کی بات ہی نہیں۔ہاتھ کا کام ہوتا ہے اس کمائی میں اضافہ تو جان بوجھ کر ہوا نا۔ جتنی موبائل کی کمپنیاں تھیں وہ سب کی سب بند ہوگئی ہیں۔ کیونکہ وہ جن چیزوں سے موبائل بناتے ہیں وہ مہنگی ہیں۔سو ان کایہ شکوہ کہ مہنگائی ہے کسی حد تک قابلِ قبول ہے۔پھر ان کو ٹیکس بھی اضافی دینا پڑتا ہے۔اب تو سیکنڈ ہینڈ موبائل لاہور سے خرید کر لاتے ہیں اور یہاں بیچتے ہیں۔ یہ الگ سا کاروبار شروع ہو چکاہے۔کیونکہ نیا موبائل خریدنا عام وخاص کے لئے ایک مشکل کام بن چکا ہے۔سو جب سپلائی نہ ہوگی تو ڈیمانڈ بڑھ جائے گی اور جب ڈیمانڈ بڑھ جائے گی تو از خود مہنگائی نے اوپر ہی جانا ہے۔کیونکہ سپلائی اورڈیمانڈ بازار کی خاص اداہے جن کی وجہ سے چیزوں کی قیمتیں اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں۔پہلے مرغی دانہ مہنگاہوا تو مرغی سستی ہوگئی اور کچھ نے کہا کہ یہ تو اصل میں عوام نے بائیکاٹ کیا ہے جس کی وجہ سے مرغی کی قیمت کم ہوگئی ہے۔مگرعوام ایکاکر لیں اور ہر چیز کے خلاف اسی طرح بائیکاٹ کر دیں تو پھر قیمتیں نیچے آ سکتی ہیں۔وگرنہ تو از خود بڑھائی ہوئی قیمتیں آج زمین پر اورکل آسمان پر سچ مچ پہنچ جائیں گی اور ہم ان کو خریدنے  راکٹ میں بیٹھ کر اوپر خلا میں سے جاکر توڑ لائیں گے جیسے کسی کی مانگ میں سجانے کو ستارے توڑ کر لائے جاتے ہیں۔اب تو مرغی پھر زیادہ نرخوں پر فروخت ہونے کی وجہ سے ہزار روپے میں کمزور سی مل جاتی ہے۔کوئی روٹی نہ کھا سکے اور وہ ان حالات میں پھل کہاں سے اور کیوں خریدے گا۔پھل روٹی کی جگہ روزمرہ کے طور پر ہر غریب کے گھر میں تو نہیں کھائے جاتے۔ مگر پھلوں کی قیمت پوچھنا تو کیا ان کی طرف دیکھناہی جرم تصور ہو گا۔ ان حالات میں بس پھلوں کی ہتھ گاڑیوں کے پاس سے گزر جاؤ اور اگر دیکھ لو تو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لو،اب کے عید دو ہاتھ پر ہے اورچار ہاتھ کا کپڑا بھی بندہ خرید نہیں سکتا۔ پھر خود کو چھوڑدیں کہ چلو مجھے ضرورت نہیں مگر گھر میں نفری زیادہ ہو تو ان کو کیونکر نئے کپڑے دلاسکتے ہیں۔کپڑے خریدنا اور کام ٹھہرا ہے اور پھران کو سلواناتو اورکام ہے۔ہر چیز پر اخراجات اٹھ رہے ہیں۔کہتے ہیں کہ چیونٹی کے بھی پر نکل آتے ہیں۔مرغی جس کے پر تو پہلے سے موجود ہیں مگر اس کو پر لگوا کر اُونچا اڑا دیا گیا ہے۔