راولپنڈی سے ٹیکسلا کی طرف جاتے ہوئے جی ٹی روڈ کے بائیں طرف آپ کو ایک یادگارنظر آئے گا کہ جو نکلسن مانیومنٹ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ 1868 میں تعمیر ہوا اور یہ جان نکلسن کی یاد میں کھڑا کیا گیا کہ جس نے فرنگیوں کے نزدیک جنگ آزادی کے خلاف کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ہم تو1857 میں فرنگیوں کے خلاف مسلمانوں کی تحریک کو جنگ آزادی کہتے ہیں پر فرنگی اسے غدر کہتے ہیں۔ہوا یوں کہ اس جنگ کو ناکام کرنے میں بریگیڈئر جنرل جان نکلسن کا کلیدی کردار تھا جو دلی میں لڑتے ہوئے مارا گیا اور مندرجہ بالا مانیومنٹ اس کی یاد میں فرنگیوں نے کھڑی کی۔نکلسن خود اس جنگ آزادی میں دلی کے مقام پر لڑتے ہوئے مارا گیا تھا اور اس کی قبر دلی میں ہی ہے۔ نکلسن کا تعلق آئرلینڈ سے تھا اور اس کا ایک بھائی جو فوج میں ڈاکٹر تھا بھی قبائلی علاقے میں لڑتے ہوئے ہلاک ہوا تھا۔ نکلسن کچھ عرصے ڈپٹی کمشنر بنوں بھی رہا تھا۔ جہاں بحیثیت ایک اچھے منتظم اور سول سرونٹ بھی اس نے کافی نام کمایا تھا،کتابوں میں لکھا ہے کہ اس کی ڈپٹی کمشنری کے دور میں بنوں جیسے ضلع میں کہ جس کا کرائمز کا گراف دیگر اضلاع سے بہت زیادہ ہوا کرتا تھا کوئی قتل کا کیس نہ ہوا۔ کیونکہ وہ جرائم پیشہ افراد کے ساتھ بڑی سختی سے پیش آتا تھا۔اب کچھ تذکرہ دیگر اہم امور کا ہوجائے،سعودی عرب اور ایران کے وزرائے خارجہ کے درمیان چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ملاقات ہوئی ہے۔ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان یہ سات
برس بعد اعلی سطح کی ملاقات ہے۔سعودی عرب کے سرکاری نشریاتی ادارے 'الاخباریہ' نے گزشتہ روز اس ملاقات کی ویڈیو ایک ٹوئٹ میں جاری کی جس میں سعودی وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اور ان کے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہ کو گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں رہنما میڈیا کیمروں کے سامنے ملاقات کرنے کے بعد میٹنگ روم کی جانب روانہ ہو گئے جہاں دونوں کے درمیان ون آن ون ملاقات ہوئی۔دونوں ملکوں نے کچھ عرصہ کشیدگی کے بعد گزشتہ ماہ چین کی ثالثی میں تعلقات کی بحالی پر اتفاق کیا تھا۔حال ہی میں دونوں ملکوں نے سرکاری طور پر اعلان کیا تھا کہ رمضان میں ہی وزرائے خارجہ ملاقات ہوگی
جمعرات کو بیجنگ میں ہونے والی ملاقات سے قبل دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان حالیہ ہفتوں میں دو مرتبہ ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوا تھا۔خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو دوبارہ کھولنے کے امور پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے سے نہ صرف علاقائی سیاست میں تبدیلیاں آئیں گی بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں امن و امان کی صورتحال مستحکم ہونے میں بھی مدد ملے گی۔گزشتہ مہینے ایران کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکریٹری علی شامخانی اور سعودی عرب کے قومی سلامتی کے مشیر مساعد بن محمد العیبان نے چینی وزیرِ خارجہ وانگ یی کی موجودگی میں ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس پیش رفت سے متعلق پہلے کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔