اسراف نہیں قناعت کی ضرورت

بے شک اس ملک کے ہر شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ اس کے سر پر اسکی اپنی چھت ہو بلا شبہ ٹرانسپورٹ بھی ملک کے ہر باسی کی ضرورت ہے پر کیا اس ملک کا ایک عام فرد اس قسم کے محل نما بنگلوں کو تعمیر کرنے اور پھر ان میں رہائش کے لئے  دکھائی جانے  والے  دیگر مہنگے ترین لوازمات اختیار کرنے کا مالی طور پر متحمل ہوسکتا ہے  جو پر مختلف ہاوسنگ سوسائٹیوں کی تشہیر  کرکے  عام  لوگوں کو انہیں اپنانے کی طرف راغب کیا جا رہا ہے‘اس ملک کا عام آدمی تو اس لائف سٹائل کا صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے تو کیا ہم یہ باور کرنے میں حق بجانب نہیں کہ یہ جو ہمارے ارباب بست کشاد بار بار قوم کو سادگی کا بھاشن دیتے آ ئے ہیں وہ محض سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے تھے‘ان میں سے کسی نے بھی آج تک  قوم کو درست ڈگر پر چلانے کی کوشش نہیں کی آپ کو اگر چین جانے کا اتفاق ہوا ہو توآپ نے ضرور نوٹ کیا ہوگا کہ انکے شہروں اور دیہات میں عام آدمیوں کو چھوٹے چھوٹے فنکشنل  قسم کے گھروں میں کس طرح سے تمام  بنیادی ضروریات کی فراہمی کیساتھ بسا کر چینی قیادت نے اپنے ہاں لوگوں کے رہائشی مسئلے کو حل کیا ہے  بالکل اسی طرح وطن عزیز میں بھی عوام کے لئے اسی قسم کی رہائش کا بندوبست کیا جا سکتا تھا اگر آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک اپنی آبادی کیلئے مناسب گھر بار کا بندوبست کر سکتا تھا تو ہم کیوں نہیں کر سکتے تھے‘افسوس کہ ہم نے نہ قناعت کا سبق خود یاد کیا اور نہ بچوں کو یاد کرایا اور اسراف میں اتنے ڈوبے کہ اب اس سے باہر نکلنا محال نظر آ رہا ہے کیا ضرورت تھی ہمیں  اپنی اشرافیہ اور حکمرانوں کیلئے مہنگی ترین لگژری گاڑیوں کی امپورٹ کی کہ جس کا سلسلہ ہنوزجاری ہے کیا چین سے سبق لے کر ہم اپنے  ملک میں چھوٹی گاڑیوں کا چلن عام نہیں کر سکتے تھے  وی وی  آ ئی پی  کلچر کو ہم اس ملک میں 1947 ء سے عام کر رہے ہیں دنیا کا سب سے آ سان کام قرضہ لے کر اسے اللوں تللوں پر اڑانا ہوتا ہے افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ اس  کام میں ہم ید طولیٰ رکھتے ہیں‘ نہ جانے ہم یہ بات کیوں بھولے کہ پیسے درختوں پر نہیں اگتے ہمارے ارباب اقتدار نے یہ کیوں نہ سوچا کہ جو قرضے ہم لے رہے ہیں انہیں ہم نے بلکہ ہماری آنے والی نسلوں نے  سود کے ساتھ واپس بھی کرنا ہے‘  اسی طرح کبھی بھی ہمارے ارباب بست و کشاد نے صدق دل سے یہ کوشش ہی نہیں کی کہ غیر ممالک سے مہنگی اشیا ئے تعیش کی امپورٹ بند کی جائے‘عربی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ رعایا اپنے بادشاہوں کا چلن اپناتی ہے اگر ہمارے ارباب اقتدار نے قناعت اور سادگی کا چلن اپنایا ہوتا تو  یہ روش عام آدمی میں بھی عام ہوئی ہوتی اور آج ہم معاشی طور پر اتنے ذلیل و خوار نہ ہوتے کہ جتنے ہو چکے ہیں  اور مانگے تانگے سے ملک کی معیشت کو چلا رہے ہیں۔آئی ایم ایف کے چنگل سے آ خر دنیا کے کئی ممالک نکلے بھی تو ہیں‘ہم نے ان کے طریقہ کار اور طرز عمل  سے فائدہ  اٹھا کر اپنے آپ کو اس چنگل سے نکالنے کی کوشش کیوں نہ کی‘ بیرونی قرضوں سے اگر تو ہم نے عام آدمی کے واسطے ریلوے کے نظام کو ہی استوار کیا ہوتا اور ایسے منصوبوں کا جال بچھایا ہوتا کہ جو عوام دوست ہوتے‘ تو پھر بھی کوئی بات تھی پر ہم نے تو ہمیشہ صرف اشرافیہ کے  مفادات کو مد نظر رکھا ہے۔