بھارت میں کرکٹ ورلڈ کپ کے ممکنہ آغاز میں چھ ماہ باقی رہ گئے ہیں لیکن ٹورنامنٹ کے میچوں کا شیڈول تاحال جاری نہیں کیا گیا اور ایسا ہونے کی بنیادی وجہ وہ باہمی تنازعات ہیں جو کرکٹ کھیلنے والی اقوام کے درمیان پائے جاتے ہیں اگرچہ کرکٹ کو ’جنٹلمین گیم‘ کہا جاتا ہے اور اِس کے بظاہر قواعد و ضوابط بھی امن و رواداری کے فروغ کے لئے تخلیق و تشہیر کئے جاتے ہیں لیکن کھیل پر فیصلہ کرنے والوں کی ترجیحات حاوی ہیں اور اِس ایک منفی رجحان کو ختم کرنے کے لئے ’انٹرنیشنل کرکٹ کونسل‘ نے برسوں پہلے کھیل میں سیاسی مداخلت کو بدلنے کی جانب اشارہ کیا تھا کرکٹ کا آئندہ عالمی مقابلہ فی الوقت جغرافیائی سیاست کی نذر ہوتا دکھائی دیتا ہے جس کی تیاریاں بھی تاحال شروع نہیں ہوئی ہیں‘ یہ تاخیر 2019ء کے ایونٹ کے بالکل برعکس ہے جب ورلڈ کپ برطانیہ اور ویلز کھیلا گیا تھا اور اِس عالمی مقابلے کی تاریخوں اور مقامات کا اعلان کھیلوں کے بڑے مقابلوں کے لئے معمول کی پریکٹس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سال سے زیادہ عرصے پہلے کر دیا گیا تھا‘ آئندہ ورلڈ کپ کا میزبان بھارت ہے۔ بھارت کے کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) اس سے قبل تین ون ڈے ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کر چکا ہے اور اکتوبر نومبر میں دس ٹیموں پر مشتمل
ایونٹ کا انعقاد دنیا کے اِس امیر ترین کرکٹ بورڈ کے لئے کوئی بڑی مشکل نہیں ہوگی‘ ذہن نشین رہے کہ دنیا کا سب سے امیر کرکٹ بورڈ بھارت کا ہے‘ ورلڈ مقابلے میں سب کی نظریں پاک بھارت مقابلوں پر ہوں گی لیکن چونکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سیاسی تعلقات کشیدہ ہیں اِس لئے کرکٹ کے معاملات بھی پیچیدہ اور دونوں ممالک کے درمیان مقابلے اِس وقت تک ناممکن دکھائی دے رہے ہیں۔ کرکٹ شائقین اِن دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان جغرافیائی سیاسی کشمکش کی بجائے کرکٹ کا کھیل دیکھنے کے متمنی ہیں اور یہی وجہ ہے جب بھی پاک بھارت کرکٹ مقابلے کی تاریخوں کا اعلان کیا جائے گا‘ چند گھنٹوں میں ہزاروں ٹکٹ فروخت ہو جائیں گے اور شائقین کرکٹ اُنگلیوں پر مقابلوں کے دن گننا شروع کر دیتے ہیں‘ بھارت نے ستمبر میں ہونے والے ایشیا کپ کے لئے پاکستان کا دورہ کرنے
سے انکار کر دیا ہے اور امکان ہے کہ وہ اپنے میچز پاکستان کی بجائے کسی دوسرے مقام جسے وہ ’نیوٹرل (غیرجانبدار)‘ کہتا ہے کھیلے گا کیونکہ منتظمین ایسے ’ہائبرڈ ماڈل‘ پر اتفاق کیا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اِن میڈیا رپورٹس کی بھی تردید کی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ اس نے گزشتہ ماہ دوبئی میں ہونے والے ’آئی سی سی‘ بورڈ اجلاس میں بھی اسی طرح کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن گزشتہ ہفتے ایک بیان میں ’آئی سی سی‘ نے کہا تھا کہ وہ ’صحیح وقت اور مناسب فورم پر ’ہائبرڈ ماڈل‘ پر زور دے گا‘ اگر پاکستان کی کرکٹ ٹیم بھارت کا سفر کرنے پر راضی ہو جائے تو ’بی سی سی آئی‘ کو بھارتی حکومت سے ویزا کلیئرنس حاصل کرنا ہوگی۔ اِس سلسلے میں بات چیت ہو رہی ہے لیکن تاحال ورلڈ کپ کے چند مقابلے بھارت سے باہر منتقل کرنے پر بات چیت نہیں ہوئی اور نہ ہی مقابلوں کے شیڈول کو حتمی شکل دی گئی ہے ظاہر ہے کہ پورا ورلڈ کپ پاکستان اور بھارت کے کرکٹ مقابلوں کی وجہ سے معلق ہے‘ کرکٹ سے متعلق خبریں دینے والی ویب سائٹ (cricinfo.com) نے خبر دی ہے کہ بھارت نے ابھی تک حکومت سے ٹورنامنٹ کے لئے ٹیکس چھوٹ بھی حاصل نہیں کی‘ جس کی یقین دہانی عالمی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کو کروائی گئی تھی ’آئی سی سی‘ چاہتا ہے کہ اُسے ورلڈ کپ سے جس قدر بھی آمدنی حاصل ہو‘ بھارت کی حکومت اُس پر کسی بھی قسم کا ٹیکس وصول نہ کرے کیونکہ کرکٹ ورلڈ کپ کی وجہ سے ساتھ بھارت کو سیاحت کی مد میں اربوں ڈالر آمدنی ہوگی۔ اگر آئی سی سی بھارت سے ٹیکس استثنیٰ حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو بھارت کا کرکٹ بورڈ اپنی آمدنی میں سے آئی سی سی کو ادائیگی کرنے کا پابند ہوگا۔ بھارت میں ٹیکس قواعد سخت ہیں جس میں استثنیٰ بآسانی نہیں دیا جاتا۔ بھارت کے کرکٹ بورڈ نے رواں ہفتے جاری اپنے بیان میں اگرچہ نہ تو تنازعات کا ذکر کیا اور نہ ہی ٹیکس چھوٹ کے حوالے سے ہوئی کسی پیشرفت کا ذکر کیا لیکن یہ دعویٰ ضرور کیا ہے کہ کرکٹ کے عالمی مقابلوں کو شایان شان ’یادگار ایونٹ‘ بنا کر پیش کیا جائے گا جس کا دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کو بے صبری سے انتظار ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اب تک کے فیصلوں کی روشنی میں‘ کرکٹ کے ورلڈ کپ مقابلے پانچ اکتوبر سے شروع ہوں گے اور فائنل مقابلہ اُنیس نومبر کے روز ’احمد آباد‘ میں کھیلا جائے گا جو دنیا کا سب سے بڑا ’کرکٹ سٹیڈیم‘ ہے۔