بعض بہت نازک مزاج ہو تے ہیں ہنسی ہنسی میں معلوم بھی نہ ہوگا اور ناراض ہو چکے ہوتے ہیں‘ مصیبت یہ کہ پتا بھی نہ چل سکے گا کہ کس وقت خفا ہوئے اور کس بات پر خفگی لے بیٹھے‘پھر نہ تو وہ خود بتلائیں گے کہ میں آپ سے ناراض ہوں‘ یہ تو جب کچھ دن گزریں گے اور ممکن ہے مہینے گزر جائیں مگر معلوم نہیں ہو پائے گا۔کسی وقت کسی بات سے اندازہ ہو جائے گا اوہو یہ تو مجھ سے ناراض ہیں‘پھر وہی بات کہ پتا نہیں چل سکے گا کہ ناراض ہیں تو کس بات پر ہیں‘ہم سے کون سی غلطی ہوگئی ہے‘ان کو ایسا نہیں کرنا چاہئے اگر ممکن ہو تو ان کو گلہ کر دینا چاہئے اگر نہ ہوتو تعلقات ہمیشہ کیلئے آئے گئے ہوجاتے ہیں‘اب انسان کو اتنابھی تنک مزاج نہیں ہونا چاہئے‘دل بڑا کرنا چاہئے اوردل بڑا رکھنا چاہئے اگر دوسرے سے غلطی ہو تو ساتھ دل ہی دل میں معاف کرنا چاہئے دوستی کرنا مشکل کام ہے برداشت کا مادہ ہونا چاہئے اگر صبر و برداشت سے کام نہ لیا تو دوستی کے دھاگے بہت کچے ہوتے ہیں جو ذرا سی حرکت سے ٹوٹ جاتے ہیں دوسری طرف رشتہ داریوں کے دھاگے کچے ہونے کے باوجود اتنے پختہ ہوتے ہیں کہ کوئی مائی کا لعل ان کو توڑے نہیں توڑسکتا مگر دوستیاں تو پانی کے بلبلے ہوتے ہیں‘ ذرا سی ہوا تیز چلی تو ساحل کے کنارے بننے والے یہ آبگینے معلوم بھی نہیں ہوتا اور بغیر آواز کے اچک جاتے ہیں‘شعر ہے کہ ”خیالِ خاطرِ احباب چاہئے ہر دم۔انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو“۔رشتے ناتوں کو اگر استوار رکھنا ہے تو بھی دل بڑا کرنا ہوگا مگر ناراضیا ں ہوں تو رشتہ داریوں میں آئی ہوئی دراڑیں معافی تلافی سے کبھی پُر ہو کر نئے سرے سے مضبوط ہو جاتی ہیں کسی تقریب میں رشتہ داریوں کے دھاگے پھرسے گٹھان لگا کر جوڑ لئے جاتے ہیں لیکن دوستیاں تو کاغذ کی کشتیاں ہوتی ہیں جو بیچ دریا کے تیر رہی ہوتی ہیں جو قربانی کے پانیوں پر چلتی ہیں اگر بر موقع کوئی کسی کے کام نہ آیا تو بعد میں خوشحالی ہوئی تو وہ دوستی کس کام کی جو مصیبت میں کام نہ آ سکی‘سو اسی لئے کہتے ہیں کہ دوست وہ ہوتا ہے جو مصیبت میں کام آتا ہے مگر رشتہ داری کے بارے میں اس بات کی چھوٹ ہے کہ اگر کوئی کسی کام نہ آیا تو اگلا عارضی طور پر ناراض تو ہو جاتا ہے مگر بعد میں کہیں کسی موقع پر دوبارہ گلے مل کر رشتہ استوار کرلیتا ہے ”سب نہ ملنے تک کی باتیں تھیں جب آکے مل گئے۔ سارے شکوے مٹ گئے سارا گلہ جاتا رہا“مگر دوستی جو ایک بار ٹوٹ جائے تو دوبارہ یہ شیشے کا گلدان بن نہیں پاتا”شیشہ ٹوٹے بھی تو چھناکاہوا کرتا ہے۔دل جو ٹوٹے بھی تو آواز نہیں ہوتی ہے“اس لئے دوستی کرنا ہے تو دل کو بڑا کرنا ہوگا۔ اگلے کی خطاکو معاف کرناہوگاکیونکہ دوستی کے رشتے بنتے تو اچانک ہیں مگر بر سوں چلتے ہیں تاہم دوستوں کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہئے ہر کسی کی اپنی مجبوری ہوتی ہے ان رشتوں کویونہی بے سبب توڑنہیں دینا چاہئے‘سالہا سال کے بنے ہوئے دوستی کے رشتے تو آدمی کا سرمایہ ہوتے ہیں بلکہ بعض دوستیاں تو رشتہ داریوں سے زیادہ مضبوط ہو جاتی ہیں بلکہ دوستیوں میں اگر شادی بیاہ کے رشتے ہو جائیں تو وہ دوستیاں اور زیادہ پائیدار ہو جاتی ہیں اس طرح بھی ہوتا ہے دوستی میں اگر رشتہ ہو جائے تو دوستیاں ٹوٹ بھی جاتی ہیں‘مثلاً دو گہرے دوست جب ایک دوسرے کے گھرانے میں شادی کے بعد رشتہ دا ربن جاتے ہیں تو ان کو ایک دوسرے سے لاج آتی ہے اوریہی شرم وحیا ان کو ادب و احترام کے رشتے میں پروکر ایک دوجے سے دور کردیتی ہے‘ اصل میں جو قابلِ قدر چیز ہے وہ انسان ہے‘ انسان کو دیکھیں کہ اگر آج اس کی معاشرے میں کوئی قدر و قیمت نہیں تو یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ آنیوالے کل میں یہ انسان اپنی حیثیت میں دوسروں سے آگے نہیں جائیگا‘ رشتوں ناتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کشاکش میں نہیں کھونا چاہئے۔دوستیوں کے رشتے کو شیشے کے گلاس کی طرح اچانک زمین پر گرا کر توڑنا درست نہیں ”فیض نے کہا ’گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے۔یہ رات بھر کی جدائی توکوئی بات نہیں“۔برداشت صبر اور تدبر ان تین چیزوں کو ہر دور میں سراہا گیا ہے۔یہ ہوں تو انسانیت بھی اپنے جوبن پر ہوتی ہے انسانیت کی رعنائی اسی صبر و برداشت سے ہے‘ اورکبھی معافی مانگ لینے سے دنیا فنا نہیں ہوتی بلکہ ٹوٹے ہوئے دل دوبارہ سے جڑ جاتے ہیں۔اتفاق بہت اچھا ہے نفاق اچھا نہیں۔