1973ء کے آئین کی تشکیل و ترامیم

1973کے آئین کے آرٹیکل 5 کے مطابق پاکستان سے وفاداری ہر شہری کے بنیادی فرائض میں شامل ہے، آئین کی پاسداری ہر اس فرد کے لئے بھی ضروری ہے جو عارضی طور پر بھی پاکستان میں موجود ہو، آئین کے دیباچہ میں درج ہے کہ پاکستانی عوام اللہ کو حاضر ناظر جان کر اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے پاکستانی کو ایسی اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد جاری رکھیں گے جو ایک طرف تو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہو جبکہ دوسری جانب قائداعظم کے عزم کے مطابق جمہوری ہو،ریاست پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں معرض وجود میں آئی‘1973 ء کے آئین کے نفاذ کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ 14 اگست 1972 ء کو سٹیٹ بنک بلڈنگ اسلام آباد میں 142 ممبران اسمبلی نے حلف لیا،17 اپریل کو عبوری آئین کے مسودہ پر عمل کرتے ہوئے 25 رکنی آئینی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی سربراہی محمد علی قصوری کو سونپی گئی،22 اپریل 1972 ء کوآئینی کمیٹی کے پہلے اجلاس کا انعقاد کیا گیا، 9 اکتوبر1972 ء کو محمد علی قصوری کی جگہ عبدالحفیظ پیرزادہ کو کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا، 17 سے 20 اکتوبر 1972 ء تک صدر ذوالفقار علی بھٹو نے پارلیمانی پارٹی کے رہنماوں کو آئین پاکستان پر دستخط کرنے کی دعوت دی تاکہ ہر رہنما اپنی تجویز یا پھر تحفظات بارے آگاہ کرسکے، 31 اکتوبر 1973 ء کے آئین کا مسودہ عبدالحفیظ پیرزادہ نے قومی اسمبلی میں پیش کردیا، 2 فروری 1973 ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین باضاطبہ طور پر پیش کردیا گیا، 17 فروری 1973 ء کو 34 نشستوں میں آئین پاکستان کی مختلف شقوں پر بحث مباحثہ کیا گیا، 10 اپریل 1973 ء کو 125 ووٹوں سے آئین پاکستان منظور کرلیا گیا، 12 اپریل 1973 ء کو صدر پاکستان نے آئین پاکستان کو منظورکرلیا،یوں 14 اگست 1973 ء کو آئین پاکستان کا باضابطہ طور پر نفاذ عمل میں آگیا، یقینا اس میں دوآراء نہیں کہ1973ء کا آئین پاکستان کی ایک ایسی دستاویز ہے جو بجا طور پر قومی وحدت، ملکی استحکام اور ملی وقار کی علامت ہے، اس پس منظر میں آئین پاکستان 1973 ء میں اب تک کی گئی 25 ترامیم کو آسان اختصار کے ساتھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ پہلی ترمیم 1974 ء میں یوں کی گئی کہ پاکستان کے حدود اربعہ کا دوبارہ تعین کیا گیا‘دوسری ترمیم بھی 1974 ء میں ہوئی کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا‘تیسری ترمیم 1975 ء میں یوں کی گئی کہ اس ترمیم میں Preventive Detention کی مدت کو بڑھایا گیا۔Preventive Detentionکا مطلب ہے کسی ایسے شخص کو نامعلوم مقام پر رکھنا جو ریاست پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہو‘چوتھی ترمیم 1975 ء کی شکل میں اقلیتوں کو پارلیمنٹ میں اضافی سیٹیں دی گئیں‘پانچویں ترمیم 1976 ء میں ہائی کورٹ کا اختیارسماعت وسیع کیا گیا‘چھٹی ترمیم 1976 ء میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی مدت بالترتیب 62 اور 65 سال کی گئی‘ساتویں ترمیم 1977 ء میں یوں کی گئی کہ وزیر اعظم کو یہ طاقت دی گئی کہ وہ کسی بھی وقت پاکستان کے عوام سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر سکتا ہے‘آٹھویں ترمیم 1985 ء میں اس طرح ہوئی کہ پارلیمانی نظام سے نیم صدارتی نظام متعارف کروایا گیا اور صدر کو اضافی اختیارات دیئے گئے‘نویں ترمیم 1985 ء میں شریعہ لا ء کو لاء آف دی لینڈ کا درجہ دیا گیا‘دسویں ترمیم کے تحت 1987 ء میں پارلیمنٹ کے اجلاس کا دورانیہ مقرر کیا گیا کہ دو اجلاس کا درمیانی وقفہ 130 دن سے نہیں بڑھے گا‘گیارہویں ترمیم 1989ئکے ذریعے دونوں اسمبلیوں میں سیٹوں کی Revision کی گئی‘بارہویں ترمیم 1991 ء میں سنگین جرائم کے تیز ترین ٹرائل کیلئے خصوصی عدالتیں عرصہ 3 سال کیلئے قائم کی گئیں‘تیرہویں ترمیم 1997 ء میں صدر کی نیشنل اسمبلی تحلیل کرنے اور وزیر اعظم ہٹانے کی پاورز کو ختم کیا گیا‘چودہویں ترمیم 1997ء ممبران پارلیمنٹ میں Defect پائے جانے کی صورت میں ان کو عہدوں سے ہٹانے کا قانون وضح کیا گیا‘پندرھویں ترمیم 1998ء شریعہ لا ء کو لاگو کرنے کے بل کو پاس کیا گیا‘سولہویں ترمیم 1999ء میں کوٹہ سسٹم کی مدت 20 سے بڑھا کر 40 سال کی گئی، سترہویں ترمیم 2003 ء میں صدر کی پاورز میں اضافہ کیا گیا،اٹھارہویں ترمیم 2010 ء میں این ڈبلیو ایف پی کا نام تبدیل کیا گیا اور آرٹیکل 6 متعارف کروایا گیااور اس کے علاوہ صدر کے نیشنل اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار کو ختم کیا گیا‘انیسویں ترمیم 2010 ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا قیام عمل میں آیااور سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے حوالے سے قانون وضح کیا گیا‘بیسویں ترمیم 2012ء میں صاف شفاف انتخابات کے لئے چیف الیکشن کمشنر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تبدیل کیا گیا‘اکیسویں ترمیم 2015 ء میں سانحہ اے پی ایس کے بعد ملٹری کورٹس متعارف کروائی گئیں‘بائیسویں ترمیم 2016 ء میں چیف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اہلیت کا دائرہ کار تبدیل کیا گیا کہ بیورو کریٹس اور ٹیکنو کریٹس بھی ممبر الیکشن کمیشن آف پاکستان بن سکیں گے،تئیسویں ترمیم 2017ء سال 2015 ء میں قومی اسمبلی نے اکیسویں ترمیم میں 2 سال کے لئے ملٹری کورٹس قائم کیں‘ یہ دوسال کا دورانیہ 6 جنوری 2017 کو ختم ہو گیا،اس تئیسویں ترمیم میں ملٹری کورٹس کے دورانیے کو مزید 2 سال کے لئے 6 جنوری 2019  ء تک بڑھایا گیا۔چوبیسویں ترمیم 2017ئمردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کو دوبارہ تشکیل دیا گیا۔پچیسویں ترمیم 2018ء فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ملانے کے لئے صدر نے 31 مئی 2018 ء کو دستخط کر دیئے۔درحقیقت اب تک 1973 کے آئین نے ثابت کیا ہے کہ وہ تمام تر مسائل کے باوجود تاحال پاکستانی عوام کی امنگوں کا ترجمان ہے۔