مہنگائی اسباب و بحران

مانیٹری پالیسی کمیٹی نے پالیسی ریٹ (شرح سود) کو ایک فیصد بڑھا کر اکیس فیصد کر دی ہے‘ دوسری اہم بات یہ ہے کہ  انٹرسٹ ریٹ کو بنیادی افراط زر (نان فوڈ اور نان اِنرجی مہنگائی) سے جوڑ دیا گیا ہے جو مارچ 2023ء کے دوران شہری علاقوں میں 18.6فیصد اور دیہی علاقوں میں 23.1فیصد جبکہ مہنگائی کی قومی اُوسط شرح ’اکیس فیصد‘ رہی۔ قابل ذکر ہے کہ کسی بھی معاشی نظریے کے ساتھ زیادہ ترقی یافتہ معیشتوں میں افراط زر اور شرح سود (پالیسی ریٹ) کے درمیان تعلق کی تصدیق تجرباتی مطالعات سے ہوتی ہے لیکن پاکستان میں اس طرح کا کوشش یا تعلق دیکھنے میں نہیں آتا۔ مہنگائی کے محرکات ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں اضافے‘ توانائی پر دی جانے والی سبسڈی میں کمی اور ایکس چینج ریٹ میں حالیہ گراوٹ کی وجہ سے ہے اور اِس کے لئے ذمہ دار وہی ہیں جنہوں نے بجلی گیس اور پیٹرولیم مصنوعات جیسی عمومی استعمال کی یوٹیلیٹیز کی لاگت میں اضافہ کیا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ٹیکس وصولی کا ایسا نظام وضع کیا گیا ہے جس میں آبادی کے لحاظ سے ہر شخص سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جبکہ ٹیکس وصولی کا نظام آبادی کی بجائے آمدنی پر ہونا چاہئے۔ ٹیکس وصولی کے اِس نقص کی وجہ سے امیروں کے مقابلے غریبوں کی اکثریت زیادہ ٹیکس ادا کرتے کرتے اُس انتہا کو عبور کر چکی ہے جسے ’خط غربت‘ کہا جاتا ہے۔ بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کو دیئے جانے والے قرضہ جات‘ موجودہ شرح سود (پالیسی ریٹ) کی روشنی میں قابل عمل نہیں رہے۔ اگر کوئی شخص اپنے کاروبار کے لئے قرض لے گا تو اکیس فیصد کا  انٹرسٹ ریٹ اور بینکوں کے اخراجات ملا کر اُسے تیس فیصد سے زیادہ انٹرسٹ ادا کرنا پڑے گا اور اِس پر عائد ٹیکس الگ ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ  ا نٹرسٹ ریٹ میں اضافے سے چھوٹے قرضوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے بالخصوص چھوٹی صنعتوں پر خام مال یا نیم تیار شدہ مصنوعات تیار کرنے والی ’گھریلو صنعت‘ پر شرح سود میں اضافے کے شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ رواں ہفتے گیلپ سروے سے معلوم ہوا کہ پاکستان کے 500 سے زائد کاروباری اداروں کی رائے یہ ہے کہ ملکی معیشت  مشکلات کا شکار  ہے جبکہ چھیاسٹھ فیصد اداروں نے کاروباری حالات خراب ہونے کا شکوہ کیا ہے۔  ’گیلپ بزنس کانفیڈنس انڈیکس‘ کے تازہ ترین ایڈیشن کے مطابق متعدد معاشی بحرانوں کے درمیان 2023ء کے ابتدائی تین مہینوں میں کاروباری اعتماد میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا کہ ”گزشتہ سال کے سیاسی عدم استحکام نے مختلف اقتصادی بحرانوں اور کاروباری عدم تحفظ کو بڑھاوا دیا ہے۔“ سروے پاکستان بھر میں دوہزارتیئس کی پہلی سہ ماہی میں تقریباً پانچ سو بیس کاروباری اداروں مالکان کے انٹرویوز پر مبنی ہے‘ یہ مشق تین وسیع حصوں پر مشتمل تھی جن میں موجودہ کاروباری صورتحال‘ مستقبل کی کاروباری صورتحال اور ملک کی سمت شامل تھی‘ سہ ماہی کی بنیاد پر ان تینوں شعبوں کی انڈیکس ویلیو کم ترین سطح پر گر گئی۔ سروے میں شامل دو تہائی شخصیات نے کہا کہ انہیں پہلے کی نسبت خراب یا بدتر حالات کا سامنا ہے‘ کاروباری حالات ’بہت خراب‘ ہونے کی تصدیق کرنے والے کاروباروں کی تعداد میں سات فیصد اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ سہ ماہی سے ایک فیصد پوائنٹ کی کمی کے ساتھ موجودہ کاروباری صورتحال کا اسکور منفی بتیس فیصد پر آگیا۔ وہ کاروباری شخصیات جو یہ خدشہ ظاہر کر رہی ہیں کہ مستقبل میں حالات مزید خراب ہوں گے‘ ان کی تعداد پچھلی سہ ماہی کے مقابلے میں سات فیصد اضافہ ہوا ہے تقریباً اکسٹھ فیصد کاروباری شخصیات نے کہا کہ وہ مستقبل کے حوالے سے زیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں ہیں۔ صرف اڑتیس فیصد نے صورتحال میں بہتری کی توقع ظاہر کی۔ ’فیوچر بزنس کانفیڈنس سکور‘ سہ ماہی بنیادوں پر گیارہ فیصد پوائنٹس کی کمی کے ساتھ منفی بائیس فیصد ہو گیا۔قومی معیشت میں بہتری (شرح نمو) کے بغیر مہنگائی و دیگر معاشی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ نومبر دوہزاربائیس میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ ملکی شرح نمو تین فیصد رہے گی لیکن ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق پاکستان کی معیشت سکڑ رہی ہے اور معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے (بحالی) کے لئے ضروری ہے کہ  انٹرسٹ ریٹ میں اضافے کی بجائے کمی لائی جائے۔