واہ کیا خوب تھے وہ بچپن کے دن۔اب یاد آتے ہیں تو روح پر برچھی سی چل جاتی ہے۔جب موجودہ بچوں کو گلی میں کھیلتے ہوئے دیکھتا ہوں تو دل میں ایک حسرت انگڑائیاں بھرتی ہیں۔وہ یہ کہ کاش ہم بچپن کے دنوں میں واپس چلے جائیں۔ یہ واحد وہ دنیا ہے جہاں کوئی غم ہمیں چھوتک نہیں سکتا۔ جب کوئی غم اور تکلیف ہمیں اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کرتا تو ہمارے ماں باپ ان کو اپنے اوپر اوڑھ لیتے اور ہمیں بیچ میں سے نکال لیتے۔واہ واہ واہ ماں باپ کیا نعمت کیا قدرت کی نشانی ہیں۔جس کے والدین زندہ ہیں ان کو لمبی حیاتی ملے اور ان کے بال بچے جیئیں۔ کتنی خوبصورت معصومانہ عمر ہوتی ہے۔ کسی طرف کا غم نہیں ہوتا۔ روٹی پانی دکھ درد پیسے ٹکے ہر مسئلے کا حل ہمارے والد والدہ کے پاس تھا۔وہ ان بلاؤں کے آگے آ جاتے خود کو ان مصیبتوں کے منہ میں دے کر ہمیں ایک طرف کر دیتے۔ہائے وہ اب نہ رہے مگر کب تک رہتے اور کس نے رہنا ہے۔ ہم خود اب ان کی خالی کرسیوں پر بیٹھ گئے ہیں اور اپنے بال بچوں کے لئے دکھ اور درد کے آگے ڈھال بن کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ جس تکلیف نے آنا ہے وہ ہمارے اوپر سے ہوکر گزرے گی تو ہمارے بچوں تک پہنچے گی۔ قدرت نے انسان تو کیا جانوروں کی مائیں بھی ایسی بنائی ہیں جیسے ہم انسانوں کے لئے کائنات کا ایک ہی حسین رشتہ دیا ہے۔وہ رشتہ ماں کا ہے۔ مرغی کے بچے گھوم رہے ہوں تو مرغی سانپ کے ساتھ بھڑجاتی ہے۔ہر جانور جب کسی مصیبت کو اپنے بچوں کی طرف آتا دیکھتا ہے تو اپنی بے سرو سامانی اور اپنی کم پرواز کے باجود بے طاقتی کو طاقت بنا کر اپنے سے زیادہ جسامت والے جانورکی طاقت سے ٹکرا جاتا ہے۔بچپن میں بس ایک منصب ہوتا ہے کھیلو اور خوب کھیلو جب تھک جاؤ تو اور کھیلو اندر آؤ ماں باپ سے پیسے جھاڑو اور کھانے کھاؤ او رسو جاؤ۔چھٹیاں ہو تو سکول کا نام بھی نہ لو کیونکہ ہمارے ہاں تو بچے کی کمر پر بستہ کے نام پر جیسے آٹے کی بوری اٹھوا دی جاتی ہے کہ اس کوڈھوکر سکول لے جاؤ دوبارہ کل کے لئے واپس لاؤ۔بچوں کی زندگی بادشاہوں کی سی زندگی ہے۔مگر ٹھہریں مجھ سے غلطی ہوگئی۔ہم بھی جب اپنے قلم کو کان پر رکھ کر چل پڑتے ہیں تو تیز رو ریل گاڑی بھی ہمارے پیچھے آتی ہوئی ہم سے آگے جانے کی کوشش کرتی ہے۔بلکہ ہمارے قلم کے گھوڑے کے لئے سٹاپ تو کیا فل سٹاپ بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ یہ تو ہم زور سے اس کی باگیں کھینچ لیں تو یہ کہیں دیرکے بعد جاکر اپنے مقام پر رک جاتا ہے۔وگرنہ تو آگے کھائی ہو تودھڑام سے نیچے گرنے کو تیار ہوتا ہے۔کچھ اور بچے ایسے بھی ہیں میں روز ان کو بہ غور دیکھتا ہوں جن کو ماں باپ نے سکول سے اٹھوا کر چھولے کلول کی چلتی ہوئی بڑی دکان پر بطورِمزدور کام کاج کے لئے رکھ چھوڑاہے۔ان سے میری تو روز کی ملاقات ہے۔ہر ایک کے ساتھ خفیہ انٹرویو ہے۔اس سروے کا ایک ہی نتیجہ ہے کہ گھرمیں کمانے والا کوئی نہیں۔میں صبح سے نکلا ہوں اور ہاتھ میں تسبیاں اور ماسک وغیرہ ہیں۔ کوئی فروخت ہوگیا تو ہوگیا وگرنہ خالی ہاتھ گھر لوٹتا ہوں۔ہم تو ایسے علاقے میں رہائش رکھتے ہیں جو شہری علاقہ نہیں۔ بچے شہر جاتے ہیں اور شام ڈھلے یا رات گئے گھرکو لوٹتے ہیں۔ چنگ چی تک سڑک پر سے ہوکر آتے ہیں۔وہ آخری سٹاپ پر اتار دے تو یہ گھر کو پیدل روانہ ہو تے ہیں۔کسی بائیک والے کو ہاتھ دیتے ہیں۔پھر ان کے ساتھ آگے کسی موڑ پر اترجاتے ہیں۔میں تو کوشش کرتا ہوں کہ ان کو گھر کے قریب اتاروں۔ان بچوں کے چہروں پر خوف ہوتا ہے۔وہ معصومیت جو خود ان کے چہروں پر سارا دن کے لئے کھیلے کہیں دور دیس میں جا بسی ہوتی ہے۔پوچھا کتنے پیسے کئے آج۔کہتے ہیں سو روپیہ کمایا ہے۔تو گھر میں کتنے دیتے ہیں۔ کہتا ہے دوسو دینے ہوتے ہیں۔سو ان کو جیب سے سو نکال کر ہاتھ پر رکھ دیتا ہوں کہ ماں کو دو سو دینا۔کتنے ہی ہمارے سورج چاند ستارے بچے تکے والوں کی دکانوں کوئلے کے جلتے ہوئے انگاروں کو پنکھے سے ہوا دے رہے ہوتے ہیں۔تو کون ہے جو ان کو اس کام سے روک لے اور اپنے گھر لے جائے ان کواپنے پلے سے پڑھائے لکھائے اور خرچہ پانی دے۔کرتے ہیں مہربان لوگ ہیں۔مگر ہر بچے کے ساتھ تو ایسا نہیں ہوتا۔انھو ں نے تو گھر میں بیوہ ماں کو روز کا خرچہ دینا ہوتا ہے۔ان کے لبوں سے ہنسی چھن چکی ہے۔یہ مشین بن چکے ہیں ان کو کھیلنے سے کام نہیں ان کے سامنے ان کے ماں باپ مصیبت کے وقت نہیں آسکتے کہ کسی دکھ درد کو روک کر ان بچوں کو جانے دیں۔ یہ ایسے مقام پر ہیں کہ فالج زدہ باپ اورتاریک زندگی کے سایو ں میں بسنے والی ماں کی بھوک اور تنگ دستی کے آگے آ کر خود ان کو بچا لیتے ہیں۔