کیسی چلی ہے اب کے ہوا 

مہنگائی نے ہرے بھرے اشجار کے ہوتے ہوئے پھلوں کی تاثیر لوٹ لی ۔پھرپہلے کی طرح یہ پھل بہتات میں تو ہیں۔ مگر جانے کہا ںچلے گئے ۔پھر کہاں لے جا کر فروخت کئے جا رہے ہیں کچھ تو معلوم ہو ۔اتنا کہ یہاں اس شہر میں تو ان کی گرد تک بھی پہنچنا دشوار ہے ۔پھر ملتے ہیں تو ایسی نایاب چیز بنا کر بیچے جاتے ہیں کہ لینے والا صرف خواہش ہی کر سکتا ہے کہ خریدے۔ نہیں تو چپکے سے آگے کو نکل جاتا ہے ۔آٹے کی مفت بوریاں تقسیم ہو رہی ہیں۔ مگر اس کے باوجود لوٹ مچی ہے ۔جیسے آٹا نایاب و ناپید ہے ۔ اس میں شہریوں کے لالچ کو بھی دخل ہے ۔اگرآرام اور سکون سے پھر آرام و سکون اور ہم میں یہ ہو نہیں سکتا ۔دوڑ بھاگ کر اور چھینا جھپٹی سے بغیر قطار اورنمبر کے بغیر آٹا لیتے بھی نہیں بلکہ چھین لیتے ہیں ۔ اگر یہی آٹا بغیر بھاگ دوڑ کے ایک قطار میں اپنے نمبر پر حاصل کیا جائے تو کیا بات ہے ۔مگر ہمارے ہاں کا یہ رواج نہیں ہے ۔یہاں جب تلک کوئی حادثہ نہ ہوجائے کسی کو دھیان نہیں رہتا، خود عوام کو خیال نہیں آتا ۔آٹے کی تقسیم کا کوئی انتظام نہیں بنایا گیا۔ ایک دن کا راشن ڈالو یا مہینے بھر کا راشن ہو۔اس نے جلد ختم ہونا ہوتا ہے ۔میں تو کہتا ہوں کہ مہینے بھر کا راشن ڈالنے سے کہیں بہتر ہے کہ روز کی چینی چائے پتی کے ساشے کھلا دودھ لایا جائے ۔کیونکہ ایک حساب سے آئے گا ۔پھراگر مہینے بھر کا راشن آجائے تو گھر والوں کا دل بھی اس سٹاک پرنہیں دکھتا ۔ا س پر کھلا ہاتھ مارتے ہیں ۔کوئی چپس پکانے کو بیٹھ جاتا ہے اور کوئی اضافی سموسے گھی میں تلنا شروع ہو جاتاہے او رکوئی دہی بھلے بنانے لگتا ہے ۔پھر جس نے جیب سے پیسے دے کر راشن لایا ہوتا ہے اس کا خون جلنے لگتا ہے ۔جیسے اس کے خون میں پکوڑے تلے جا رہے ہوں۔روز جتنی مقدار میں چاول پکتے ہیں اس سے زیادہ چولھے پر چڑھا دیتے ہیں۔ایک تہذیب یافتہ لوٹ مار مچ جاتی ہے ۔ سو اس لئے کہا کہ روز کی چائے چینی لانا کنٹرول میں ہو تو بہتر رہتا ہے ۔ورنہ تو تیس دنوں کا پیکیج ہفتہ بھر میں چٹ کر جاتے ہیں ۔کیونکہ لوٹ سیل مچ جاتی ہے۔ جس کا جو جی کرتا ہے چمچہ اور کڑاہی لئے بن گیس کے چولھے کے آگے پھونکیں مار کر اور تیلیاں جلا کر آگ روشن کرنے کو تیار کھڑاہوتا ہے ۔مگر سرکاری پائپوں میں اگر گیس دستیاب نہ ہو تو سلینڈر کو گھسیٹ کر اس کو دیاسلائی دکھلاتے ہیں اور دھیمی دھیمی آگ روشن کر کے اپنا کام نکالتے ہیں۔پھر راشن بھی کون سا اصلی ہوتا ہے ۔ مہنگائی نے جیسے ان کی اصلیت کو نوچ لیا ہو۔ ہر چیز دو نمبر آ رہی ہے ۔اگر ایک نمبر ہے تو اس میں مقدار کم کر دی گئی ہے اور ساتھ اس کا نرخ بھی زیادہ ہو چکا ہوتا ہے۔رات کو ایک نرخ پوچھ کر سوئے تو صبح چیز دوسری گراں قیمت پر ملے گی۔ کمپنی سے تو کیا مہنگا ملے خود دکاندار بھائی بھی ازخود نوٹس لے کر اشیاءگراں کر دیتے ہیں۔اب لاکھوں تو دکانیں ہیں۔ ان کو چیک کرنے کے لئے کہ ان کی دکانوں پر نرخ نامہ لگا ہے کہ نہیں نرخ نامہ کے باوجود مہنگا کیوں فروخت ہو رہا ہے ۔اس کام کے لئے لاکھوں اہلکار چاہئیں جو روز کے روز اور ہمہ وقت بازار میںموجودہوں جو اشیاءکی خریداری اور فروخت پر نظر رکھیں ۔ مگر جب برق و شر سے خود باغبان ہی مل جائیں تو پھرکوئی کچھ نہیںکر سکتا۔” باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے۔جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے“۔ جب چمن کے پتے اس ہوا کے چلنے کے دوران میں آگ کو ہوا ہی دینے لگیں تو آپ ہی بتلائیں کہ ہم بتلائیں کیا۔اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ تمام تاجر دکاندار چیزیں مہنگی بیچ رہے ہیں بلکہ ایسے بھی ہیں جو رمضان المبارک میں صارفین کو سہولت دینے کیلئے اشیاءخوردونوش کو رعایتی نرخوں پر بیچتے ہیں۔ تاہم بین الاقوامی سطح پر جو مہنگائی کی لہر آئی ہے اس نے تمام ممالک کو متاثر کیا ہے۔تاہم ہمارے ہاں زیادہ ہی اثرات نظر آرہے ہیں کہ راشن دینے والے بھی اس قابل نہیں رہے کہ راشن دے سکیں ۔مگر جو دیتے ہیں وہ کچھ نہ کچھ کر دیتے ہیں ۔اداروں کی جہاں تک بات ہے ان کے نام یہاں لکھے جا سکتے ہیں مگر وہ بھی اب کے پوشیدہ رہے ۔پھر جو اشخاص ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ان کی اس نیکی کا کہیںتذکرہ ہو اور وہ بھی اخبار میں ہو ۔