اسلام آباد: گزشتہ چند ماہ کے دوران امریکا، سوئزرلینڈ اور لبنان جیسے ممالک میں کچھ بینکوں کے دیوالیہ ہونے کے کیسز سامنے آئے ہیں، جس کے بعد پاکستانی بینکنگ سسٹم پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کا بینکنگ سسٹم مضبوط ہے، پاکستان کے بینکنگ سسٹم کی نمایاں خرابیاں بینکنگ سیکٹر کے اسٹرکچرل سسٹم میں چھپی ہوئی ہے۔
پاکستانی بینکوں کے اسٹرکچر میں نمایاں خرابیاں کنسنٹریشن رسک، نان پرفارمنگ لونز، ٹرانسپیرینسی اور احتسابی نظام کی کمزوری، ناقص لیگل اور ریگولیٹری فریم ورک، اور شہریوں کی جانب سے بینکوں سے محدود لین دین ہیں۔ یہ وہ اسٹرکچرل خرابیاں ہیں، جن کی وجہ سے پاکستان کا بینکنگ سسٹم ہر وقت خطرات کی زد میں ہے۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق رواں برس فروری تک حکومت نجی بینکوں سے 21.74 ٹریلین روپے کا قرضہ حاصل کرچکی ہے۔ پبلک سیکٹر آرگنائزیشنز نے اس دوران 11.24 ٹریلین روپے کا قرض حاصل کیا ہے جبکہ پرائیویٹ سیکٹر نے محض 8.6 ٹریلین روپے کا قرض حاصل کیا ہے۔
قرضوں کا یہ میکانزم معاشی اور اقتصادی حوالے سے کوئی اچھا سگنل نہیں ہے، لیکن بینکنگ سسٹم کے حوالے سے یہ ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔ کیوں کہ نجی اداروں کے مقابلے میں ریاست کے دیوالیہ ہونے کے امکانات بہت محدود ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ کووڈ 19 ریلیف ورک، بڑھتے ہوئے اخراجات اور بجٹ خسارے کی وجہ سے گزشتہ سالوں کے دوران حکومت کی جانب سے قرضے لینے کے رجحان میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔