ہاکی اور سکواش کی نشاط ثانیہ کا انتظار

 ایک لمبے عرصے تک پاکستان کا ہاکی اور سکواش کے کھیل میں دنیا میں طوطی بولتا تھا اور اب ایک طویل عرصے سے ہم ان دونوں گیمز میں ایسے اوندھے منہ گرے پڑے ہیں کہ کوشش بسیار کے باوجود دوبارہ اٹھنے کا ہمیں یارا نہیں ہو رہا۔تقسیم ہند سے قبل بھی ہندوستان کی جو بھی ہاکی ٹیم عالمی مقابلوں کیلئے منتخب کی جاتی تھی تو اس میں بھی کئی مسلمان کھلاڑی ان علاقوں سے چنے جاتے تھے جو اب پاکستان کا حصہ ہیں۔ ایک بڑے عرصے تک صرف  ورلڈ اولمپکس اور ایشین گیمز میں ہاکی کے مقابلے ہوتے تھے درج ذیل حقائق سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان کی ہاکی کے میدان میں دنیا میں کتنی کلیدی پوزیشن تھی۔ ورلڈ اولمپکس گیمز ہر چار سال بعدہوتے تھے قیام پاکستان کے بعد 1948 میں لندن میں جو ورلڈ اولمپکس گیمز ہوئے اس میں پاکستان کی ہاکی ٹیم چوتھے نمبر پر آئی تھی اس کے بعد 1952 میں ہیلسنکی میں ہونے والے ورلڈ اولمپکس میں ہم نے کانسی کا تمغہ حاصل کر کے تیسری پوزیشن حاصل کی اس کے چار سال بعد 1956 میں آسٹریلیا میں ہونے والے ورلڈ اولمپکس میں ہم نے  چاندی کا تمغہ جیت کر دوسری پوزیشن حاصل کی اور اس کے بعد 1960 میں روم میں ہونے والے ورلڈ اولمپکس میں ہم نے گولڈ میڈل جیت کر دنیائے ہاکی میں پہلی پوزیشن حاصل کی، کامیابی کا یہ سفر 1980 کی دہائی کے اواخر تک جاری و ساری رہا اس دوران ہر چار سال بعد جتنے بھی ورلڈ اولمپکس گیمز ہوئے ان میں ہاکی کے میدان میں یا ہم گولڈ میڈل جیتتے رہے اور یا  پھر سلور میڈل۔یاد رہے کہ ورلڈ اولمپکس کے ساتھ ساتھ وقفے وقفے سے  ایشیا کی سطح پر بھی اولمپکس گیمز ہوتی رہیں اور ان میں بھی ہماری ہاکی کی ٹیم سرخروہوتی رہی اس دوران اولمپکس گیمز کے علاہ بھی عالمی سطح پرہاکی کے کئی ٹورنامنٹ کھیلے جانے لگے اور ان میں بھی ہماری ہاکی ٹیم یا تو گولڈ میڈل جیتتی اور یا پھر سلور میڈل۔ ھاکی کے میدان میں ہم نے کئی نابغے پیدا کئے ان میں سے چند نام درج ذیل ہیں،حمیدی، نصیر بندہ،وحید انوار، احمد خان، مطیع اللہ، خورشید عالم، حبیب علی کڈی عاطف،شہناز، سمیع اللہ، حسن سردار، حیات ذکاالدین، نور عالم، قاضی محب ،فضل الرحمان اور منظور جونیئر وغیرہ۔پاکستان کی ہاکی ٹیم کے زوال کی ایک وجہ تو یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہم نے  ملک کے اندر آ سٹرو ٹرف کا استعمال بہت دیر سے شروع کیا جب کہ ہاکی کھیلنے والے دیگر ممالک نے ہاکی کو آ سٹرو ٹرف پر کھیلنا ہم سے بہت پہلے شروع کر دیا تھا۔ہمارے کھلاڑی چونکہ عام گھاس یا ریت پر کھیلنے کے عادی تھے  ان کو بیرون ملک آسٹرو ٹرف پر کھیلنے کی پریکٹس نہ تھی لہٰذا 1980 کی دہائی سے بیرون ملک ہاکی کے میدانوں میں ہماری ہاکی ٹیم کی کارکردگی گرتی چلی گئی۔ دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک عرصے سے اس ملک جتنی حوصلہ افزائی اور پاسداری کرکٹ کی  ہو رہی ہے  اتنی ھاکی کی نہیں۔  اگر تو پاکستان ہاکی فیڈریشن ملک کے سینئر ہاکی کے کھلاڑیوں کی مشاورت کے ساتھ ایسے اقدامات اٹھائے کہ ملک میں ہاکی کی نشاط ثانیہ ہو جائے تو یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں البتہ اس کیلئے حکومت کو اپنی ترجیحات درست کرنا ہوں گی۔ اسکے واسطے  مربوط منصوبہ بندی کی  ضرورت ہے۔اسی طرح مقام افسوس ہے کہ اب پشاور کے نواحی گاؤں نوا کلے سے ہاشم خان، اعظم خان اور روشن خان جیسے سکواش کے کھلاڑی پیدا نہیں ہو رہے حالانکہ آج سکواش کے کھلاڑیوں کو اس گیم میں اپنا کیرئیر بنانے اور اوپر آنے کے جتنے مواقع حکومت فراہم کر رہی ہے ماضی میں ان کی مثال نہیں ملتی۔