مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ انار کلی بازار دور تک سیدھا چلا گیا ہے وہی قدیم عمارتیں اوپر کی منزلوں میں وہی پرانے جھرو کے‘ محرابی چھجے‘سائبان‘جھروکوں پر پڑی ہوئی چلمنیں‘ صدیوں سے سفیدی نہیں ہوئی‘مرمت نہیں ہوئی اور پرانی دیواروں میں اگر کوئی تبدیلی نظر آتی ہے تو یہ کہ جاپانی ائر کنڈیشزانہیں توڑتے ہوئے باہر تک نکل آئے ہیں‘ ایک طرف عورتوں کا بہت بڑا بازار ہے‘ گلیاں اور انکے اندر گلیاں‘سب خواتین کی‘میں اندرچلا گیا ہر طرف اتنی زیادہ خواتین تھیں کہ ایک بار تو میں سہم کر رہ گیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ مردوں کو اندر آنے کی اجازت نہ ہو اور میں بھولے سے چلاآیا ہوں‘کچھ بھی ہو یہ انار کلی بازار ہے‘ ویسے بھی نام کی مناسبت سے اس پر پہلا حق خواتین کا ہے لاہور کی کہانی یہاں کے علم وفضل کی بات کہے بغیر پوری نہیں ہوتی اور ایک پورے دور کی اس کہانی کے جیسے راوی عاشق حسین بٹالوی ہیں‘ بوڑھا راوی بھی نہیں ہوسکتا‘ شہر کی سماجی‘ثقافتی اور سیاسی زندگی کا عاشق حسین صاحب نے بہت قریب سے جائزہ لیا ہے اور خصوصاً لاہور کا وہ زمانہ دیکھا ہے جب علم و ادب وثقافت کے آسمان پر لاہور ستارا بن کر جگمگارہا تھا‘ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی بھی اب بہت بزرگ ہیں مگر اپنا زمانہ ان کے ذہن پر یوں نقش ہے جیسے ابھی کل کی بات ہو‘ اس روز وہ لاہور کے یادگار دنوں کی داستان کہہ رہے تھے‘لاہور کے میں نے مختلف دور دیکھے ہیں لیکن علم اور ادب کی ترقی اور فروغ کے اعتبار سے سب سے زرخیز اور بھرپور دور جو میں نے لاہور میں دیکھا ہے وہ دوسری عالمگیر جنگ سے کوئی سات آٹھ سال پہلے کا دور ہے‘ پھر وہ دور نہیں آیا‘دوبارہ لاہور کے اورینٹل کالج میں ڈاکٹر شیخ محمد اقبال‘پروفیسر شیخ محمد شفیق‘حافظ محمود شیرانی‘گورنمنٹ کالج میں پطرس بخاری‘ اور پھر اقبال خود اور اس کے علاوہ مولانا ظفر علی خان۔ اردو لکھنے والوں میں کرشن چندر وغیرہ نئے پیدا ہورہے تھے‘، مولانا تاجور نجیب آبادی تھے تونجیب آباد کے لیکن انکی ساری عمر لاہور میں گزری‘ دیال سنگھ کالج میں پڑھاتے تھے وہ‘ تو انہوں نے لاہور میں ایک اردو مرکز قائم کیا اور اردو مرکز میں کام کرنے کیلئے انہوں نے یاس عظیم آبادی‘جگر مراد آبادی اور اصغر گونڈوی جیسے شاعروں کو بلایا اتفاق سے اسی زمانے میں سیماب اکبر آبادی اور ساغر نظامی بھی لاہور آگئے تو لاہور کایہ حال ہواجیسے بارات میں شہنائیاں بجنے لگی ہوں۔ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ ان بڑی شخصیات کا تذکرہ ہے جن کی موجودگی نے اس دور کو خاص بنا دیا تھا اور اب بھی ان کا تذکرہ اسی حوالے سے کیا جاتا ہے۔