پاک اَفغان تاجروں کے حالیہ مشترکہ اِجلاس میں مختلف اَمور اور تنازعات زیرغور آئے اور اتفاق اِس بات پر ہوا کہ پاک افغان تجارتی تنازعات کا ’پرامن حل‘ ہونا چاہئے۔ طورخم بارڈر پر ہوئے اجلاس میں پاک افغان تاجروں کے میں دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر قدرے تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ اجلاس کی صدارت چیف کلکٹر کسٹمز خیبر پختونخوا نے کی جبکہ دیگر حکام میں کلکٹر کسٹمز آپریشنز پشاور‘ ایڈیشنل کلکٹر کسٹمز طورخم‘ ایڈیشنل کلکٹر کسٹمز پشاور‘ ڈپٹی کلکٹر آپریشنز طورخم‘ اسسٹنٹ کلکٹر طورخم‘ سپرنٹنڈنٹ اور پی آر او کسٹمز کے علاوہ پاکستان کے تاجروں کی نمائندہ تنظیم کے کوآرڈینیٹر اور ڈائریکٹر‘ سی سی آئی کے صدر اور طورخم کسٹم ایجنٹس ایسوسی ایشن کے اراکین نے شریک ہوئے۔ اجلاس میں نو تعمیر شدہ ’این ایل سی ٹرمینل پراجیکٹ‘ کا جائزہ بھی لیا گیا۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی تنازعات جنہیں رکاوٹیں بھی کہا جاتا ہے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ایک سے زیادہ حکومتی ادارے (این ایل سی‘ ایف سی‘ پولیس‘ دیگر سیکورٹی محکمے اور کسٹمز) سرحدی تجارت کی نگرانی کرتے ہیں لیکن اِس نگرانی کے باوجود پاکستان سے اشیا اجناس اور کرنسی کی افغانستان غیرقانونی منتقلی ہوتی ہے۔ تجارتی عمل میں معاونت اور سہولت کاری کرنے والے طورخم‘ غلام خان‘ کھرلاچی بارڈر پر محکمہئ کسٹمز کی کارکردگی سے مطمئن ہیں جو پاکستان کے نکتہئ نظر سے تسلی بخش صورتحال ہے لیکن افغان تاجر اِس کے بارے میں یکسر مختلف رائے رکھتے ہیں! بارڈر مینجمنٹ کے طور پر اشیا ء و اجناس کی چیکنگ (جانچ پڑتال) میں خرچ ہونے والے وقت پر پاکستانی اور افغانی تاجروں کی رائے ایک جیسی ہے اور دونوں ہی چاہتے ہیں کہ ایک سے زیادہ مقامات پر جانچ پڑتال کے نظام میں سست روی ختم کی جائے۔ پاکستانی تاجر کسٹمز حکام سے بات چیت کرتے ہوئے نرمی اور مصلحت سے کام لیتے ہیں اور اپنے کاروباری فائدے کے لئے زیادہ تنقید نہیں کرتے جبکہ افغانستان کے ساتھ تجارت کے برسرزمین حقائق انتہائی تلخ ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت جو کنٹینرز میں بند سازوسامان کراچی بندرگاہ پہنچتا ہے اُسے کلیئر ہونے میں دس سے بارہ دن لگتے ہیں جبکہ کمپیوٹرائزڈ دور میں یہ کام چند گھنٹوں یا دنوں میں بھی ممکن ہے اور کنٹینرز کی فوری کلیئرنس اِس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ سست روی کے باعث کنٹینرز پر ڈیمرج چارجز عائد کئے جاتے ہیں۔ اِسی طرح کراس سٹفنگ کے سرکاری احکامات کے باوجود اِن ہدایات پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا اور ہر کنٹینر پر لاکھوں روپے کے چارجز الگ سے عائد کئے جاتے ہیں۔ ایک تجویز یہ سامنے آئی ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت آنے والا سازوسامان کراچی سے طورخم تک ٹرکوں کی بجائے ریلویز کے ذریعے منتقل کیا جائے۔ اِس مقصد کے لئے ’اضاخیل ڈرائی پورٹ‘ پر جی ڈی (گڈز ڈاکیومنٹس) فائل کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔’افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ‘ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کا معاہدہ ہے جس کا مقصد اجناس و اشیاء کی راہداری ہے اِس معاہدے کی حالیہ شکل و صورت میں منظوری سال دوہزار دس میں غیر ملکی سفیروں کی موجودگی میں دی گئی تھی۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ پاکستان اس وقت معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور افغانستان کو سنگین مسائل کا سامنا ہے‘ تو دونوں ممالک کے حکام اور اعلی سطحی نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاہدے کو بحال رکھیں اور اِس کے تحت دو طرفہ تجارت جاری رکھنے پر زیادہ غوروخوض کریں۔ ذہن نشین رہے کہ افغانستان کو سال اُنیس سو پینسٹھ میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت پاکستان کے راستے اشیا کی رہداری (ٹرانزٹ) کی اجازت (سہولت) دی گئی تھی‘ جسے افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ (اے پی ٹی ٹی) معاہدہ کہا جاتا ہے۔ پرانے معاہدے کے تحت افغانستان کو ٹیکس استثنیٰ کی پیش کش کی گئی تھی اور وہ کراچی میں بندرگاہ کا استعمال کرتے ہوئے بنا ٹیکس سازوسامان کی نقل و حمل کرتا تھا تاہم اُس کی جانب سے پاکستان کو ایسے حقوق حاصل نہیں تھے۔ سال دوہزاردس کے نئے تجارتی معاہدے پر ایک مفاہمتی یادداشت کے بعد دستخط کئے گئے‘ جس کی تصدیق اُس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی کی تھی۔ مذکورہ ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان ایک دوسرے کی بندرگاہوں‘ ریلوے اور ہوائی اڈوں کا استعمال کرتے ہوئے سامان کی منتقلی کی اجازت دیتا ہے۔ معاہدے کی شرائط کے تحت افغانستان سے آنے والے ٹرکوں کو چمن‘ طورخم اور غلام خان بارڈر کراسنگز کے راستے داخلے کی اجازت ہے۔ اِن انتظامات کے مطابق افغانستان واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت کو سامان بھیج سکتا ہے لیکن بھارت اسی راستے سے افغانستان کو سامان واپس نہیں بھیج سکتا۔ تجارتی معاہدے کی وجہ سے اب دونوں ممالک کو ایسی منڈیوں تک رسائی حاصل ہے جو پہلے ان کے پاس نہیں تھی۔ افغانستان کو پاکستانی بندرگاہوں کو استعمال کرتے ہوئے بھارت اور دیگر منڈیوں تک رسائی حاصل ہے جبکہ پاکستان کو افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی مارکیٹوں تک رسائی حاصل ہے لیکن اِس سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایا جا رہا۔ یوں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایک یک طرفہ معاہدے کے دور پر جاری ہے۔ سال 2015ء میں تاجکستان کو بھی اِس تجارتی معاہدے میں شامل کیا گیا لیکن بعد میں افغانستان نے اِس سے دستبرداری اختیار کرلی کیونکہ وہ تاجکستان یا کسی اور کو اس معاملے میں حصہ لینے کی اجازت دینے سے پہلے چاہتا تھا کہ بھارت کو بھی شامل کیا جائے جو پاکستان کے لئے قابل قبول نہیں۔ سال 2017ء میں افغانستان کے اُس وقت کے صدر اشرف غنی نے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کر کے تاجکستان کے ساتھ تجارتی معاہدے کو منسوخ کر دیا تھا جس میں افغانستان کے راستے پاکستانی سامان کی آمد و رفت پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور قبل ازیں ہوئے معاہدے کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ پاکستان کو افغانستان پر دباؤ ڈالنا چاہئے کہ وہ تاجکستان کے ساتھ تجارت کے سابق معاہدے کو بحال کرے کیونکہ اِس میں افغانستان کا فائدہ بھی ہے کہ اُسے بھی تجارتی راہداری سے آمدنی حاصل ہوگی۔