یہ شہرِ دلبراں ہے 

  ہمارے ہاں ان چیزوں میں سے ہر شئے کا الگ مسئلہ ہے۔ یہاں تو نہ تورُول ہے اور نہ ہی لین ہے۔یہ تو مہذب قوموں کے ہاں پائی جانے والی نادر اشیاء ہیں اور ہمارے ہاں ڈھونڈے سے نہیں ملیں گی۔اس پر اگرقلم کمان سے تیر برسائے جائیں تو تیر ہی کم پڑ جائیں گے اور نشانے اتنے زیادہ اور مضبوط ہو ں گے کہ تیروں نے اپنے ہدف کو چھو کراس کو چھلنی نہیں کرنا بلکہ وہاں جاکر اس کی ٹھوس سطح سے ٹکرا کر ٹیڑھا میڑھا ہو کر زمین پر گرجانا ہے۔مطلب یہ ہوا اور جاننے والے جانتے ہیں ان پر کسی بات کا اثر نہیں ہونے والا۔ہم اگر اس سلسلے میں عرض کناں ہیں تو آخر کیا کہنا چاہتے ہیں جو اتنی پیچیدہ تمہید باندھی ہے۔ صاحبان سیدھے سبھاؤ یہی کہ یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔کس کس معاملے کو سدھاریں گے۔ان معاملات کو زیرِ بحث لانے کے لئے بھی دماغ چاہئے۔ان گنت مسائل ہیں او ریہ شہرِ دلبراں ہے۔ وہ فرماتے ہیں شہر سے باہر نکلو۔کہاں نکلیں کیوں نکلیں۔ کیاہم نے اس شہر کو  درستکر لیا
 ہے جو اب کسی دوسرے شہر کی تہذیب کو تسخیر کرنے کے لئے آگے چلیں۔ہمارا یہ شہر جس میں ہماری گزران ہے اور پھر اس گزر اوقات کے ساتھ ایک بھگتان ہے۔ہم نے اس کو سہارنا ہے اور اس نے ہمیں برداشت کرنا ہے۔اگرہم اچھے ہوں تو یہ کیوں خراب حال ہو۔ جوں دن چڑھتا ہے او ربازارعوامی جمگٹھوں سے لد جاتے ہیں تو اسی طرح کی بے اصولی اور لائن اور لین کی خلاف ورزیاں دیکھنے کو عام ملتی ہے۔یوں کہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں تو کوئی رُول ہی نہیں ہے۔چھوٹی گاڑیاں بڑی گاڑیوں کی لین میں گھسی ہوتی ہیں۔پھر سودا سلف لینے کے لئے خواہ وہ آٹے کی بوری ہو کوئی لائن نہیں ہے۔حالانکہ بینک میں کھڑے ہوں تورش کی حالت میں سیکورٹی گارڈ کا فرمان جاری ہوتا ہے کہ یہ آپ کیا کررہے ہیں ایک لائن بنائیں۔مگر ہمارے ہاں اس قسم کی تہذیب کا نشان اور پتا نہیں۔موٹر سائیکل کی لین میں سڑک پر بڑی ٹریکٹر ٹرالی ہزاروں اینٹیں لے کر گھسی ہوئی ہے۔پھر وہ بھی شہر کا مصروف ترین تنگ بازار جہا ں اس قسم کی گاڑی ہی اس سڑک پر جا سکتی ہے۔باقی پیچھے آنے والی گاڑیاں تو یہ ٹرالی اپنے ساتھ گھسیٹ گھسیٹ کر لا رہی ہے۔پھر جو سامنے سے آنے والی ٹریفک ہے وہ دائیں بائیں کی گلیوں میں گھس کر اس ٹرالے کو جانے دیتی ہیں۔تاکہ رش نہ بنے کیونکہ ایسے موقع پرایک موٹر بائیک کا بھی اس بڑی گاڑی کو کراس کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔شہر کے ٹریفک کنٹرول کی صورتِ احوال دگر گوں ہو چلی ہے
۔حالانکہ مٹھی میں سماجانے والا شہر اب لاہور اور کراچی کی طرح بھی پھیلاؤ کا شکار نہیں کہ اس کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ صاحبان جوں جوں عید قریب آتی جا رہی ہے بازاروں میں بھیڑ بھاڑزیادہ ہونے لگی ہے۔بس یہی ادھم مچا ہوا ہے۔افطاری کے بعد تو موٹر سائیکل پر تین تین بندے سوا رہوتے ہیں اور شور مچاتے ہوئے جاتے ہیں۔ اب سے تو نہیں جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے اور کیا ہوش سنبھالاہے بلکہ ہوش سنبھال کر سب کچھ دیکھ کر ہوش گم کر دیئے ہیں۔ جانے یہ ابتری یہ رول اصول کا زوال کب دوبارہ سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں گے۔ لائن اور لین کو کون سمجھے گا کہ یہ بھی تو کسی چیز کے نام ہیں۔ یہ منظم طر ز زندگی شعور کا تقاضا کرتا ہے یہ ازخود شعورتعلیم سے آتا ہے۔تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی نظام میں دوررس اصلاحات کا عمل شروع کیا جائے جہاں تخلیقی صلاحیتوں اور اخلاقی اقدار کو مضبوط بنانے پر توجہ دی جائے اور محض امتحانات میں نمبر لینے کی دوڑ ختم ہو۔