(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
ادب کی تخلیق اور خدمت دونوں کام سر پھروں کے ہیں میں سمجھتا ہوں تخلیق سے بھی مشکل کام خدمت ہے‘ تخلیق کیلئے رب کی عطا کی ضرورت پڑتی ہے تو خدمت کیلئے دل کے زور کی‘ دل کا زور ہو تو یار لوگ اسے دوسرے کاموں یعنی پیسے کمانے‘ اعلیٰ منصب پانے یا شہرت بٹورنے پر صرف کر دیتے ہیں ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جو اپنے دل اور اپنے پلے سے خرچ کرکے شعروادب کی خدمت میں شب و روز مصروف رہتے ہیں،شعر و ادب کی خدمت سب سے زیادہ گھاٹے کا سودا ہے اگر ایک طرف بیوی بچے ناراض‘ دوسری طرف حریف رقیب درپئے آزار‘ گھر پھونک تماشہ دیکھ والا معاملہ رہتا ہے مگر ہمارے ناز سیٹھی عرصہ دراز سے اپنی بزم بہار ادب کی شمع جلائے سر راہ گزر بیٹھے ہیں۔مگر ناز سیٹھی نے اپنی محفل ان بڑے لوگوں کیلئے نہیں سجائی۔گلبہار کے مشہور و معروب ادیب اس طرف کم ہی آتے ہیں کیونکہ ان کے لئے مقامات آہ وفغاں کئی اور موجود ہیں یوں سمجھ لیجئے کہ ناز سیٹھی نے ادب کی تیسری دنیا آباد کر رکھی ہے، زمین زمانے اور شعری و ادبی انجمنوں کے ستائے سنگ خوردہ درویشوں کا ایک زبردست سمبندھ بنا دیا گیا ہے درد مشترک رکھنے والے چند لوگ ماہ بہ ماہ گزشتہ سولہ سالوں سے گلبہار کے بھرے پرے محلوں سے گزر کرد رویش کی کٹیامیں پہنچتے ہیں جہاں مروت‘ محبت‘ خلوص اور درد مندی بانہیں کھول کر ان کا استقبال کرتی ہے یہاں کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہوتا سب برابر ہیں۔
اتنے تواترسے ماہ بہ ماہ شاید ہی کوئی ادبی انجمن اپنے جلسے منعقد کرسکتی ہو سب لوگ رضاکارانہ طور پر آتے ہیں ایک کمرے میں اکٹھے بیٹھتے ہیں ایک دوسرے کو اپنا غم اور اپنے شعر سناتے ہیں ناز سیٹھی سے ان کے فارسی شعر سنتے ہیں گرم گرم چائے پیتے اور پکوڑے‘ کیک پیسٹریاں کھاتے ہیں گرمی‘ سردی‘ بہار‘ خزاں کوئی موسم ان کا راستہ نہیں روک سکتا یوں لگتا ہے کہ ناز سیٹھی کے حلقہ نازیہ کے یہ تیس چالیس مرید ہر مہینے کی ایک شام اس انجمن کے نام وقف رکھتے ہیں‘ میں جب بھی گیا اس محفل میں تل دھرنے کی جگہ نہ پائی‘ حمد‘ نعت‘ منقبت‘ غزل‘ نظم‘ رباعی‘ قطعہ‘ اردو‘ پشتو‘ ہندکو‘ فارسی ہر صنف اور زبان کی کارفرمائی نظر آئی جتنے شاعر تو اتنے ہی سامع‘ جو ایک آدھا دانہ غیر شاعر نظر آیا اسے جھٹ صدر یا مہمان خصوصی بنا ڈالا‘ اس محفل میں ہم کو بھی ماہ بہ ماہ نہ سہی سال بہ سال ضرور بلوایا جاتا ہے ناز سیٹھی صاحب منٹ منٹ اور آدمی آدمی کاحساب رکھتے ہیں نکاح خوانوں والا ایک بڑا سا رجسٹر ہاتھوں میں لئے ایک ایک حاضر و ناظر کے پاس جاتے ہیں اور اس کی حاضری بذریعہ دستخط لگواتے ہیں ہمارے ساجد سرحدی اس محفل کے مستقل ناظم ہیں استاد گرامی مولانا شیر کوٹی بھی اکثر ان کے مشاعروں میں موجود ہوتے ہیں یہ اس محفل کا اعزاز ہے کہ مولانا شیر کوٹی صرف اس جگہ ہی اپنے شعر سناتے ہیں‘ ناز سیٹھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں اردو‘ ہندکو‘ فارسی میں برابر شعر کہتے ہیں عمر ان کی میرے ہی جتنی ہے ہم شعبہ اردو پشاور میں دو سال تک اکٹھے پڑھتے رہے جیسے پینتیس برس پہلے تھے اب بھی ویسے ہی ہیں عمر نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا‘ تب سوٹ بوٹ پہنتے تھے اب شلوار قمیض میں نظر آتے ہیں سائیکل تب بھی ان کے پاس ہوتی تھی گردن ایک طرف ڈھلکا کر دس دس میل سائیکل پر سفر کرتے ہیں ان کی صحت کا راز یہی سائیکل ہے دوسرا راز ان کی دائمی مسکراہٹ ہے ہر ایک کو اچھا کہتے ہیں کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے پاکستان کے سب اخبارات ورسائل میں اپنی بزم کی رپورٹیں چھپوانے کا انہیں خاص گر آگیا ہے سچی بات ہے پیارے سے بے ضرر‘ بے ریا اور بے تکبر انسان ہیں جن سے مل کر بے پناہ خوشی ہوتی ہے۔