تاریخ سے ایک ورق

جب جنرل فضل حق خیبرپختونخوا کے گورنر تھے تو وہ سابقہ فاٹا کے امور میں کافی دلچسپی لیا کرتے تھے‘ان کی وہاں کے عوام کے مسائل پر گہری نظر ہوتی تھی‘ جن کے حل کے لئے اقدامات ان کی ترجیح ہوتے وہ سب سے زیادہ وہاں کی سڑکوں کی  تعمیر و مرمت پر بہت توجہ  دیتے تھے بالفاظ دیگر  وہ روڈ پر کسی بھی روک ٹوک اور رکاوٹ کے  بغیر  ٹریفک کی آمدورفت اور روانی پر بہت زور دیتے تھے ان کا کہنا تھا کہ اگر قبائلی علاقے میں کوئی شر پسند کسی بات پر روڈ بلاک کرتا ہے تو یہ حکومت کی رٹ پر براہ راست حملے کے مترادف ہوتا اور اس قبیلے کے خلاف سخت کاروائی کی جانی بہت ضروری ہوتی  ہے  کہ جس کے علاقے میں سرکاری سڑک کو کوئی شر پسند کسی بات پر حکومت کو بلیک میل کرنے اور اپنی بات منوانے کے لئے  بند کرے۔ جنرل فضل حق فاٹا کے امن عامہ پر گہری نظر رکھتے تھے ان کی صدارت میں تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ٹرائیبل ایجنسی کے پولیٹکل ایجنٹوں اور فاٹا سے جڑے ہوئے ریونیو ڈسٹرکٹس کے پولیس حکام اور ڈپٹی کمشنروں کی مشترکہ  میٹنگزہوا کرتیں ان میٹنگز میں ریونیو ڈسٹرکٹس کے حکام اکثر  اس بات پر زور دیتے کہ  قبائلی علاقے کا امن عامہ ریونیو ڈسٹرکٹس کے امن عامہ کے  مقابلے میں ابتر ہے اور اس کا منفی اثر ان ریونیو ڈسٹرکٹس کے امن عامہ پر بھی پڑ رہا ہے جو فاٹا کے علاقے کے ساتھ ملحقہ ہیں  ایک مرتبہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ درست صورت حال جاننے کے لئے ایک سروے کیا جائے جس میں حقیقت حال سے آگاہی حاصل کی جائے چنانچہ اس سلسلے میں سروے کا اہتمام کیا گیا‘ اس ضمن میں شمالی وزیرستان اور اس سے منسلک بنوں کے ریونیو ڈسٹرکٹ میں جرائم کی شرح کا ایک تقابلی جائزہ لیا گیا تو یہ پتہ چلا کہ سال بھر میں پورے  شمالی وزیرستان میں اتنے جرائم نہیں ہوئے تھے  کہ جتنے بنوں  سٹی کے  صرف ایک پولیس اسٹیشن میں صرف ایک دن میں ہوئے اور اس کرشمہ کی وجہ وہ ایک صدی پرانا اجتماعی قبائلی علاقائی ذمہ داری پر مبنی تصور تھا کہ جس کے تحت فاٹا میں مجرموں سے نمٹا جاتا تھا۔