پائیدار زراعت

ایک ایسے ملک کے لئے جو پہلے ہی خوراک کے سنگین بحران سے دوچار ہو جہاں کی اکثریتی آبادی بنیادی ضروریات زندگی حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہو وہاں صورتحال قطعی غیرمعمولی اور خوداحتسابی کی متقاضی ہے‘حالیہ چند ہفتوں کے دوران بے وقت اور بے ترتیب بارشوں نے زرعی شعبے کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ بارش سے ہوئے زرعی نقصانات کے بارے میں دستیاب کوائف نہ تو سائنسی بنیادوں پر مرتب ہیں‘ نہ ہی اِنہیں مرتب کرنے میں متعلقہ محکمہئ زراعت کے فیصلہ ساز خاطرخواہ دلچسپی لے رہے ہیں‘ تعجب خیز ہے کہ حکومتی اداروں میں سب سے کم کمپیوٹرز کا استعمال اگر کسی ایک محکمے میں دیکھنے کو ملتا ہے تو وہ محکمہئ زراعت ہے‘ حالانکہ محکمہئ زراعت کا الگ سے ’انفارمیشن سنٹر‘ بنایا گیا ہے جس میں ملازمین بھی بھرتی کئے گئے ہیں اور آڈیو ویڈیو پروڈکشن کے آلات بھی خریدے گئے ہیں‘ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لئے کئی سائنسی آلات موجود ہیں تاہم زراعت کی طرح یہاں بھی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ اگر قارئین تھوڑی زحمت کریں‘ورلڈ بینک کی ویب سائٹ (worldbank.org) کے شعبہئ دستاویزات میں موجود پاکستان کے موسمیاتی اثرات سے متعلق ’33 صفحات‘ کی ایک تحقیق حاصل (ڈاؤن لوڈ) کریں تو اُنہیں ملک کو درپیش خشک سالی‘ سیلاب‘ بارشوں وغیرہ کے بارے میں بہت سے نقشہ جات مل جائیں گے جن میں رنگوں کی مدد سے اُن سبھی علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو حال میں ماحولیاتی تنوع میں بگاڑ سے متاثر اور مستقبل قریب میں مزید متاثر ہوں گے۔ اِسی تحقیق کا صرف ایک پہلو بیان کر کے آگے بڑھتے ہیں کہ پاکستان میں 1950ء سے لیکر 2010ء تک درجہ حرارت میں جس قدر اضافہ ہوا اُس کے مقابلے ہر سال دوگنا زیادہ اضافہ ہو رہا ہے‘ یہ اضافہ اِس لئے تشویش کا باعث ہے کہ عالمی درجہئ حرارت 0.7 ڈگری سالانہ کی اوسط سے بڑھ رہا ہے لیکن پاکستان کے بارے میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ یہ 2039ء تک یہ درجہئ حرارت ’ایک ڈگری سنٹی گریڈ‘ کے تناسب سے بڑھے گا اُور اگر آب و ہوا گرم ہوتی ہے تو یہ براہئ راست ’زرعی معیشت و معاشرت‘ کو متاثر کرے گی جو پہلے ہی قدرتی و غیرقدرتی آفات‘ کم زرعی پیداوار اور فصلوں کے پیداواری اخراجات میں اضافے کی وجہ سے ’غربت و افلاس‘ کا شکار ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ملکی صورتحال کس قدر تشویشناک ہے اِس بات کا تصور ملک کے کئی حصوں میں بے موسمی تیز ہواؤں‘ بارشوں اور ژالہ باری کی صورت دیکھا جا سکتا ہے؛یہ سال کے اِن مہینوں میں  غیر معمولی بات ہے۔ اگر بارشوں کا سلسلہ یونہی طویل رہا تو یہ پاکستان کی غذائی تحفظ و سلامتی کو مزید نقصان پہنچائے گا جس سے گندم کی پیداوار مزید متاثر ہوگی‘ کاشتکاروں کی نمائندہ تنظیموں نے پہلے ہی تیز ہوا اور ژالہ باری کے ساتھ ہونے والی بارش کی وجہ سے تیار فصل کے گرنے سے زرعی نقصانات کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے لیکن کاشتکاروں کو اِس مشکل وقت کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کیلئے قومی و صوبائی فیصلہ ساز خاطرخواہ دردمندی کا مظاہرہ نہیں کر رہے؛ ضمنی موضوع ہے کہ سال دوہزاردس میں کی گئی ایک آئینی ترمیم کے ذریعے زراعت کو وفاق سے لیکر صوبوں کو دیئے جانے کے بعد سے اِس کی حالت میں کیا بہتری اور کیا زوال پذیری آئی ہے‘ اِس کا الگ سے
 جائزہ لینے کی ضرورت ہے‘ غلطی کو اگر غلطی مان کر درست کر لیا جائے تو قوموں کی زندگی میں اِس قسم کی خوداحتسابی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی‘ رواں ماہ (اپریل دوہزارتیئس) جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے‘ ملک کے میدانی علاقوں بالخصوص پنجاب میں گندم کی کٹائی کا موسم قریب آ رہا ہے  یہ وہ وقت ہوتا ہے جب گندم کی فصل کو مکمل طور پر پکنے کے لئے کم پانی لیکن زیادہ سورج کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے اُلٹ ہو رہا ہے کہ زیادہ بارش اور کم سورج کی روشنی مل رہی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اِس سال گندم کی پیداوار متوقع اوسط سے کم حاصل ہوگی اور پاکستان کو اپنی مقامی ضرورت کے لئے گندم اِس سال بھی درآمد کرنا پڑے گی چونکہ اِس مرتبہ گندم کی فصل متاثر ہوئی ہے اِس لئے 2023-24ء کے لئے زیادہ مقدار میں گندم درآمد کرنا پڑے گی۔ ملک میں ”گندم بحران“ جو کہ پہلے ہی منڈلا رہا تھا۔ گزشتہ سال کے ماہئ نومبر اور دسمبر کے دوران بوائی کے مہینوں میں اِس لئے زیادہ رہا کیونکہ سندھ اور پنجاب کے کسانوں نے گندم کی کاشت کا انتخاب نہیں کیا اور اِس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ حکومت کی طرف سے گندم کی طے کردہ کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کے مقابلے گندم کی اصل پیداواری لاگت زیادہ ہے۔ ایک ایسی صورتحال جس میں گندم کی پیداوار پر اخراجات زیادہ آ رہے ہوں لیکن اُس کی قیمت کم ادا کی جائے تو کاشتکار کیونکر گندم کا انتخاب کریں گے؟ قابل ذکر ہے کہ نومبر 2022ء میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت نے گندم خریداری کی سرکاری قیمت تین ہزار روپے فی چالیس کلو گرام تجویز کی تھی اور یہ قیمت اُس غلط تخمینے کی بنیاد پر لگائی گئی جس میں گندم کی پیداواری لاگت 2495 روپے فی 40کلوگرام
 لگائی گئی جبکہ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ گندم کی فی من (چالیس کلوگرام) پیداواری اخراجات تین ہزار روپے کے لگ بھگ ہیں۔ کاشتکاروں کے اِس مطالبے پر گندم کی سرکاری قیمت 3900 روپے فی 40 کلوگرام کر دی گئی لیکن فیصلہ سازوں کو اپنی غلطی کا احساس کرنے میں بہت دیر ہو چکی تھی‘ گندم کی بوائی کا سیزن (وقت) گزر چکا تھا۔ یہی وجہ رہی کہ گندم کی کاشت کم رقبے پر کی گئی؛ بعض علاقوں میں کاشتکاروں نے صرف اُتنی ہی گندم کاشت کی جو اُن کی اپنی ضرورت کے لئے درکار تھی۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ گندم درآمد کر کے کسی دوسرے ملک کے کاشتکاروں کو تو فائدہ پہنچایا جاتا ہے لیکن پاکستان کے اپنے کاشتکاروں کے ساتھ سخاوت کا برتاؤ نہیں کیا جاتا‘ علاؤہ ازیں  صوبائی حکومتوں نے اپنے اپنے صوبائی دائرہئ اختیار میں گندم کی آزادانہ نقل و حرکت محدود کرنے کے لئے پابندی (بصورت دفعہ 144) نافذ کی تاکہ ہر علاقے (ریجن) میں گندم کی خریداری کے اہداف حاصل کئے جا سکیں لیکن یہ حکمت عملی بھی ناکام رہی کیونکہ اِس پابندی کی وجہ سے گندم کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور ایک خاص طبقے نے گندم کی ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کرنا شروع کر دی! موسمیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر رواں ماہ (اپریل دوہزارتیئس) کے دوران بھی شدید بارشوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے جو گندم کی کٹائی‘ تھرشنگ اور اِسے ذخیرہ کرنے کے لئے انتہائی اہم مہینہ (عرصہ) ہے تو اِس سے گندم کا انتہائی شدید بحران پیدا ہوگا‘ جس کے پاکستان کی معیشت و معاشرت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ گندم کی قلت آٹے کی قیمتوں میں مزید اضافے‘ غذائی اجناس کی مہنگائی (افراط زر) اور غذائی عدم تحفظ کا باعث بن سکتی ہے جس سے آبادی کے غریب اور کمزور طبقات غیر متناسب طور پر متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس سے قومی پیداوار بھی متاثر ہو گی جس سے برآمدات میں کمی ہوسکتی ہے اور پاکستان جو پہلے ہی جاری اخراجات میں خسارے اُور قومی ادائیگیوں کے بگڑے ہوئے توازن سے دوچار ہے‘ اِس بحران در بحران صورتحال (حملوں سے) سنبھل نہیں پائے گا۔ جاری موسلا دھار بارشیں صرف ’عارضی تکلیف (وقتی مسئلہ)‘ نہیں بلکہ یہ آب و ہوا کی تبدیلی اور غیر پائیدار ترقی کے جیسے ”بڑے مسئلے“ کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ پاکستان کو اپنا غذائی بحران محفوظ بنانے اور اپنی سرحدوں کے اندر اور باہر فوری‘ جدت طرازی اور دوست ممالک کے زرعی تجربات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ٹیکنالوجی پر منحصر زراعت میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔