احوال ایک ملاقات کا

کچھ لمحات اورمناظر ایسے ہوتے ہیں کہ عمر بھر ساتھ جڑ جاتے ہیں اور وقت کی دھول ان لمحات کو محو نہیں کر سکتی اور یہ لمحات ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں، کچھ ایسے ہی تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ناصر علی سیّد  اپنی کتاب ”ادب کے اطراف میں“ ایک ملاقات کا احوال قلمبندکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”یہ عید قرباں کے تیسر ے دن کی سہ پہر تھی جب میں ان کے کمر ے میں انہیں عید مل رہا تھا‘ وہ بہت  ہی مضمحل اور تھکے تھکے سے بستر پر لیٹے ہوئے ٹی وی دیکھ رہے تھے مجھے دیکھ کر انہو ں نے اٹھنے کی کو شش کی مگر میں نے آ گے بڑھ کر اور جھک کر گلے ملتے ہو ئے اُٹھنے سے روکا‘میرے سا تھ طارق آ فا ق اور کیمرہ مین رضوان تھے میں نے ان کا تعا رف کرا یا ہمیشہ کی طر ح مسکرا تے ہو ئے ان سے ملے‘مہما ن کو ئی بھی کہیں سے بھی آیاہوان کیلئے ہمیشہ بے پنا ہ مسر ت کا با عث ہو تا ہے‘مگر آ ج ان کی پہچان وہی مسکر ا ہٹ مجھے بے بسی میں بھیگی نظر آ ئی کیو نکہ وہ مہما نوں کا استقبا ل کھڑے ہو کر نہیں کر سکتے تھے آ ج عید کے دن بھی آ پ کی شیو بڑھی ہو ئی تھی‘طا رق کو پشا ور کے حوا لے سے ان کے تا ثر ات لینے تھے میں نے کہا تو فوراًحا می بھرلی اور کہنے لگے بس ذرا ہا تھ دیں کہ میں تکیہ کے سہا رے بیٹھ کر با ت کر لوں“پھر انہو ں نے  پشا ور کے با رے میں با ت شروع کی‘ گندھا را تہذیب کی پر وردہ اس وادی کا یہ طرحدارشہر گزرنے والے قا فلوں کی آما جگا ہ رہا ہے اس نے کئی ادوار دیکھے ہیں۔ شاید دو منٹ یا شا ید اس سے بھی کم اور پھر جیسے وہ اپنی کہی ہو ئی با تو ں کو دہرانے لگے‘پھر انہیں احساس ہو ا اور مسکرا کر کہنے لگے‘شا ید قصہ خوا نی کے سیلاب میں ڈوبنے والے لنڈی اربا ب کے نوا ب سر فرا ز کی بات تو میں کر چکا ہوں مگر...... اور پھر.....مجھے محسوس ہوا کہ انہیں روانی سے با ت کرنے اور خود کو مجتمع کرنے میں دشوا ری پیش آ رہی ہے‘اس لئے انہیں زیادہ زحمت دینا منا سب خیا ل نہ کر تے ہوئے سلسلہ روکنا پڑا او ان کی اجا زت سے ڈرا ئنگ میں ان کی بنا ئی ہو ئی کچھ تصویر وں‘پینٹنگز اور ان گنت ایوا ر ڈز کی تصویر کشی کرنے لگے تو چند ہی لمحو ں بعد وہ لاٹھی کے سہا رے خود کو ڈرا ئنگ روم پہنچا تے اور صو فہ پر بیٹھتے ہوئے کہنے لگے میں نے سو چا کہ مہما ن ڈرا ئنگ روم میں ہیں تو مجھے بھی جا نا چاہئے‘ان کی یہ وضع داری اس شدید بیما ری میں بھی قا ئم تھی‘ہر دم فعا ل‘مستعد‘ادبی ہنگا موں میں سب سے آ گے اورپر ُجوش انداز میں ادبی محا ذ پر سر گر م عمل یہ شخصیت پروفیسر ڈاکٹرخاطر غزنو ی کے علا وہ بھلا اور کون ہو سکتا ہے کہ ان ہی کا ڈر ا ئنگ روم تو ادب کے قبیلے سے متعلق لو گو ں کیلئے ایک مینا رۂ نور ہے۔“ آج کے احساس بیگانگی میں شرابورزمانے میں ہر بدھ کی شام اور ہر مہینے کے پہلے جمعہ کو تشنگان علم و ادب ڈرائنگ روم میں اکٹھے ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ کئی ماہ و سال سے اسی طرح جاری ہے خاطر غزنو ی شہر میں ہوں یا شہر سے باہر یا پھر (جیسا کہ اکثر ہوتا رہا ہے) ہسپتال میں داخل ہوں یہ تقریبات کسی تعطل کا شکار نہیں ہوتیں‘پہلے تو دو گھنٹوں کی چھٹی لے کر وہ ہسپتال سے تقریب میں شرکت کے لئے  پہنچ جاتے ہیں نہیں تو مسلسل ٹیلی فون پر خود کو آگاہ کرتے رہتے ہیں اور ایک ایک دوست کا پوچھتے ہیں کہ وہ شریک محفل ہے کہ نہیں مگر گزشتہ دو ڈھائی ہفتوں سے وہ محفل میں شریک تو ہوتے ہیں تنقیدی نشست میں بھرپور اور جامع گفتگو بھی کرتے ہیں مگر جلدی چپ ہو جاتے ہیں“۔اس اقتباس کا حاصل مطالعہ اخلاق، وضع داری اورعلم کو دوسروں تک پہنچانے کی لگن کا آخر دم تک قائم رکھنا ہے، یہ صفات کم لوگوں کو ہی نصیب ہوتی ہیں۔