مقام کس کو میسر ہوا ہے بے تگ و دو

اگر آپ نے پلان اے بنا کر رکھا ہے اس پر عمل درآمد کر رہے ہیں مگر ذہن میں ضرور رکھیں کہ عین ممکن ہے آپ کا پلان اے کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ تقدیر کے کھیل نرالے ہوتے ہیں انسان جو کچھ سوچتا ہے کبھی اس کے خلاف بھی ہو جا تا ہے ضروری نہیں کہ آپ لیکچرار بننے چلے ہیں تو واقعی آپ کسی تدریسی ادارہ میں ٹیچر ہی بنیں گے  ہوسکتا ہے کہ آپ کو کسی سرکاری دفتر میں میز کرسی والی نوکری مل جائے پھر کسی پرائیویٹ ادارے میں آپ کو کسی اچھی تنخواہ والی نوکری کی آفر ہو جائے‘آپ مجبور ہو جائیں کہ سرکاری افسر کی نوکری کو خیرباد کہہ کر وہ نجی کمپنی والی ملازمت اختیار کر لیں‘ پھر ممکن ہے کہ اس دوران میں آپ مقابلے کے کسی امتحان میں کامیاب ہو جائیں پھر یوں بھی ہو سکتا ہے کہ مقابلے کے امتحان کی تیاری ہواور اس دوران میں آپ بینک کی دنیا میں نکل جائیں اور وہاں کسی افسرانہ شان و شوکت کے مالک بن جائیں‘یہ ساری قسمت کی باتیں ہیں  اس لئے پلان اے کے ساتھ ساتھ  پلان بی کو بھی تیار رکھیں۔ضروری نہیں کہ انسان جو چاہتا ہو وہی ملے کبھی اس کے برعکس بھی مل جاتا ہے جس کی اس کو توقع نہیں ہوتی مگر جو بھی بننا ہے اس کے لئے پڑھائی بہت ضروری ہے پھروہ بھی روز کی محنت کرنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اگر کسی بیمار کو گولیوں کا ایک پلتا دیتے ہیں تو وہ چودہ گولیوں کی دوا ایک ہی دن میں پانی سے نہیں نگلنا ہوتیں بلکہ دو ہفتہ میں روزانہ اور پھرتواتر کے ساتھ ایک گولی رات کو سوتے وقت کھانا ہوتی ہے اس میں تواتر بہت خاص بات  ہے پھر اس میں ناغہ بھی نہیں کرنا ہوتا تب جا کر جب وہ سٹرپ ختم ہونے لگتا ہے تو مریض کو آرام آنا شروع ہو جاتا ہے‘پڑھائی کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح سے تسلسل کا تقاضا کرتا ہے حالانکہ کسی امتحان کی تیاری کرنے والے کو ہمہ وقت پڑھائی میں مصروف ہونا چاہئے اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے چلتے پھرتے ہر وقت اس کو پڑھائی کی حالت میں ہونا چاہئے لیکن اگر نہیں تو زیادہ سے زیادہ وقت دینا چاہئے پھر بھی اگر دیگر مصروفیات آڑے آ رہی ہوں تو ضروری ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں پانچ گھنٹے تو لازمی ہے کہ آپ اپنی سٹڈی کو دیں لیکن اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو روز کے حساب سے کم از کم دو گھنٹے تو متواتر پڑھناچاہئے‘یہ روز کا مسلسل پڑھنا آپ کی کشتی کو پار اتارے گا۔یہ نہیں کہ امتحان کو ایک ماہ باقی ہو اور آپ کتابیں کھول کر بیٹھ جائیں اس طرح تو سال بھر کی پڑھائی کو آپ کیسے کنٹرول میں کر پائیں گے ا س حالت میں تو آپ کو نہ پچھلا یاد آئے گا اور نہ ہی اگلاسبق یاد کر پائیں گے‘ یوں سب کچھ ادھورا رہ جائے گا‘ہمارے بعض پیارے کمپیوٹر موبائل گیم وغیرہ میں ہمہ وقت گھسے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ پڑھائی پر توجہ نہیں دے پاتے ان کو چاہئے کہ وہ پہلے اپنا ٹارگٹ سیٹ کریں اور اس پر عمل درآمد کریں‘ایسے میں اچھے مستقبل کے خواب دیکھنا بہت ضروری ہیں اگر آنکھوں میں خواب ہی نہ ہوں تو اس روڈ میپ پر کام کیسے ہوگا؟ یہ سوتی ہوئی آنکھوں کے خواب نہیں ہیں جاگتی آنکھوں کے خواب پلاننگ اور منصوبہ بندی سے تعلق رکھتے ہیں‘ جن آنکھوں میں خواب ہی نہ ہوں وہ کل کو اپنے روشن مستقبل کو ان خوابوں کی تعبیرکی شکل میں کیسے دیکھیں گی ابھی سے اٹھیں اور کوشش شروع کر دیں کیونکہ آج کے کام کو کل پر چھوڑ دینا ویسے بھی کہیں پراچھانہیں سمجھا جاتا‘موبائل او رانٹر نیٹ پڑھائی لکھائی میں مدد گا رضرور ہیں مگر ان کے ساتھ ہر وقت چپکے رہنابھی تو انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتاپھر آپ کا جو امتحان ہے وہ اس سوالنامہ کے ساتھ تو کوئی تعلق نہیں رکھے گا کہ آپ دن میں کتنے گھنٹے موبائل یا انٹر نیٹ یا کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں۔آپ کا امتحان آپ کو دی گئی کتابو ں میں سے ہوگا۔لہٰذا آپ نے ان کتابوں کو پڑھنا ہے جن میں سے پرچہ بنے گا بھلے آپ امتحان دے لیں تو اس کے بعد انٹر نیٹ کمپیوٹر موبائل استعمال کریں اور خوب کریں کیونکہ انجوائے کرنا بھی تو اسی زندگی میں ہے۔ پھر زندگی کو سہل بنانے کے لئے تفریح کا اپنا ایک مقام ہے وہ لوگ جو ہر وقت کتاب سے منسلک رہتے ہیں اکثر کامیاب دیکھے گئے ہیں چلنا اور مسلسل چلنا ہی منزل تک پہنچاتا ہے خواہ آہستہ ہی کیوں نہ چلیں اس دھیمی مگر مسلسل رفتار پر انگریزقوم بھی یقین رکھتی ہے کیونکہ پشتو کے ایک شعر کا ترجمہ ہے کہ ندی نالے دریاؤں میں جا ملتے ہیں او ردریا سمندر کو چھولیتے ہیں۔ مگر اس مقام تک پہنچتے کے لئے روانی کا پیدا ہونا ضروری  ہے۔اقبال نے کہا ہے کہ ”ہر اک مقام سے آگے گزر گیا مہ نو۔ مقام کس کو میسر ہوا ہے بے تگ ودو“۔مطلب یہ ہوا کہ پہلی تاریخ کے پنسل کی لکیرکی طرح کے چاند کو چودہ دن درکار ہوتے ہیں کہ وہ مہ کامل بن جائے یہ مقام بغیر کوشش کے حاصل نہیں ہوتا۔