جعلی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ

آئے دن اخبارات میں جعلی پاسپورٹس پر سفر کرنے والے مسافروں کو جہازسے آف لوڈ کرنے کی خبریں چھپتی رہتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وطن عزیز میں جعلی پاسپورٹس اور شاختی کارڈ کے سلسلے کو روکنے کیلئے مزید موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔،اس میں جو لوگ بھی ملوث ہوں ان کے خلاف بلا امتیاز کاروائی ضروری ہے کیونکہ ایسے ہی جعلی دستاویزات کے ذریعے دوسرے ممالک کے لوگ بیرون ملک سفر کرکے وطن عزیز کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ان میں زیادہ تر افغانستان سے پاکستان آ ئے ہوئے لوگ مستفید ہو رہے ہیں اور وہ پاکستانی دستاویزات پر عرب امارات سے  لے کر یورپ اور امریکہ تک پہنچ رہے ہیں۔اس حوالے سے بھر پورتحقیق اور تفتیش کی ضرورت ہے کہ  کہ ماضی قریب میں نادرا یا پاسپورٹ بنانے والے ان اہلکاروں کو کیا قرار واقعی سزا دے کر نشان عبرت بنایا گیا کہ جو اس قسم کے جعلی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بناتے پکڑے گئے تھے اور جن کے بارے میں میڈیا میں کافی چرچہ بھی ہوا تھا۔ اس جملہ معترضہ کے بعد اگر چند دیگر اہم توجہ طلب  عالمی اور قومی امور کا  ہلکا ساتذکرہ ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہ ہو گا۔یہ امر قابل تشویش ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جی20 کا اجلاس بلانے کی تجویز پیش کی ہے، یہ بھارت کی طرف سے عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر تسلیم شدہ تنازعہ ہے اور سات دہائیوں سے سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے اس قسم کی سرگرمیوں سے کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کو تبدیل اور نہ ہی بھارتی جبر سے دنیا کی توجہ ہٹائی جا سکتی ہے۔آج کل ایک مرتبہ پھر پی آئی اے کی تنظیم نو کی خبریں گشت کر رہی ہیں۔ہماری جنریشن کے لوگوں کو کہ جنہوں نے اپنی قومی ائر لائنز کے عروج کا زمانہ بھی دیکھا ہے، پی آئی اے کے زوال کو دیکھ کر بہت رنج ہوتا ہے۔ ھماری دانست میں صرف دو شخصیات ایسی تھیں کہ جن کے دور میں پی آئی اے ہوابازی کے ہر شعبے میں بلندیوں پر تھی اور ان دونوں کا تعلق پاکستان ائر فورس  سے تھا۔ ایک کا نام ائر مارشل اصغر خان تھا اور دوسرے کا ائر مارشل نور خان اور دونوں پاک فضائیہ کے سابق ائر چیف رہ چکے تھے ان دونوں میں تنظیمی صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہ اپنا کام میرٹ پر کرتے اور کسی کی بھی سفارش نہ مانتے۔ آج مشرق وسطیٰ کے ممالک کی جن ائر لائنز کا دنیا کی کامیاب ترین ائر لائنز میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے قیام اور ان کے عملے کی تربیت میں پی آئی اے کے سٹاف کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ افسوس کہ وہ ہم سے تربیت حاصل کر کے کہاں سے کہاں پہنچ چکے اور دوسری طرف  ہم زوال کا شکارہیں۔ پی آئی اے کی تنزلی میں کئی باتوں کا ہاتھ تھا اس میں ضرورت سے زیادہ عملہ بھرتی کیا گیا اور اور ساتھ ہی میرٹ کا بھی خاص خیال نہیں رکھا گیا۔اگر اسے ایک کمرشل ادارے کے طور پر چلایا جائے تو آج بھی اس ادارے کو ترقی کے اس مقام پر پہنچایا جاسکتا ہے جہاں دیگرکمرشل ائرلائنز موجود ہیں۔