ٹیکنالوجی پر منحصر رابطے صرف انفرادی ہی نہیں بلکہ کاروباری و معاشی ضرورت بھی بن چکے ہیں لیکن یہ کس قدر محفوظ ہیں اِس حوالے سے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے ٹیکنالوجیز کے متعارف ہونے سے شخصی یا ذاتی اور کاروباری اداروں کے کوائف کی رازداری برقرار رکھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو چکی ہے۔ رواں ہفتے ٹیکنالوجی پر نظر رکھنے والے ایک معروف و مستند عالمی ادارے ’کینیڈین واچ ڈاگ‘ نے حقائق نامہ (رپورٹ) جاری کی ہے جس میں کو کہا گیا کہ بدنام زمانہ ٹیکنالوجی کمپنی ’پیگاسس (Pegasus)‘ نے موبائل فونز کی جاسوسی کا جو سافٹ وئر (پروگرام) ایجاد کیا۔اس کی ایک اور مماثلت تیار کی گئی ہے۔ جاسوسی کے لئے استعمال ہونے والے اِس سافٹ وئر (سپائی وئر) کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اِس کا استعمال متعدد ممالک کی حکومتیں اکر رہی ہیں۔ ”سٹیزن لیب“ نامی ایک اُور تحقیقی ادارے نے کہا ہے کہ کوا ڈریم QuaDream نامی ادارے نے مذکورہ ’سپائی وئر‘ بنایا ہے۔ یہ ادارہ کم معروف ہے۔ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے غلط استعمال پر نظر رکھنے والی تنظیم ”سٹیزن لیب“ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے شمالی امریکہ‘ وسطی ایشیا‘ جنوب مشرقی ایشیا‘ یورپ اور مشرق وسطیٰ میں کم از کم پانچ ایسے افراد کی نشاندہی کی ہے جن کی اس سافٹ وئر کی مدد سے جاسوسی کی گئی ہے اور اِن متاثرہ افراد میں صحافی‘ سیاسی حزب اختلاف کی شخصیات اور ایک این جی او کا رکن شامل ہیں۔ پیگاسس جیسے زیادہ جامع ’سپائی وئر‘ کا استعمال جاسوسی کے لئے کیا جا رہا ہے۔ اِن جاسوس پروگراموں کو جعل سازی کے ذریعے کسی شخص کے موبائل فون میں ڈال دیا جاتا ہے اور پھر یہ پس پردہ رہتے ہوئے غیرمحسوس طریقے سے اپنے ہدف شخص کے فون میں ہونے والی تمام سرگرمیوں کی نقول تیار کرتا رہتا ہے اور کسی موبائل فون صارف کے تمام تر رابطوں کی تفصیلات اور اُس کے موبائل فون میں محفوظ معلومات کو بھی نقل (کاپی) کر لیتا ہے۔امریکہ کی جانب سے پیگاسس‘ کے بنائے ہوئے سافٹ وئر کی مذمت کرتے ہوئے گزشتہ ماہ (مارچ دوہزارتیئس) میں کہا گیا تھا کہ اِس کا استعمال جبر کو آسان بنانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ممکن بنانے کے لئے کیا جا رہا ہے لیکن زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ موبائل فونز کی نگرانی کے یہ سافٹ وئرز بنانے کا سلسلہ جاری ہے اور اِس سلسلے میں غیرمعروف کمپنیاں بھی فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ ”سٹیزن لیب“ کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ موبائل فون صارف کے فون یا کمپیوٹر پر نصب کیا جانے والا ’کوا ڈریم‘ (سپائی وئر) میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ وہ فون کال کی آڈیو ریکارڈ محفوظ کرسکتا ہے اور بنا فون کال بھی موبائل فون کے مائیکروفون کو فعال (آن) کر کے گردوپیش ہونے والی بات چیت (بیرونی آوازیں) ریکارڈ کرسکتا ہے‘ اِسی طرح موبائل کیمروں سے ازخود تصاویر اور ویڈیو بنا سکتا ہے اور کسی موبائل فون میں موجود مواد (فائلوں) کو تلاش (سرچ) بھی کرسکتا ہے۔ ’سپائی وئرز‘ کے حملوں سے بچنے کے لئے اب تک کے اقدامات میں معلومات ذخیرہ کرنے کے لئے ’کلاؤڈ اکاؤنٹس‘ کا استعمال تجویز کیا جاتا تھا لیکن اب کلاؤڈ بیسڈ اکاؤنٹس بھی محفوظ نہیں رہے اور کسی اکاؤنٹ کی دو درجاتی توثیقی کے عمل کو بھی ’ہیک‘ کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ سافت وئر میں حیرت انگیز خصوصیت یہ بھی رکھی گئی ہے کہ اپنا کام مکمل کرنے کے بعد یہ ازخود فون سے خارج (ڈیلیٹ) بھی ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے معلوم نہیں ہو پاتا کہ کسی شخص کی جاسوسی کی گئی ہے یا نہیں اور اِس طریقے سے یہ اپنی موجودگی خفیہ رکھتا ہے۔ اب تک کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ موبائل فونز کے ذریعے جاسوسی کرنے والے مددگار آلات (سرورز) اسرائیل‘ سنگاپور‘ میکسیکو‘ متحدہ عرب امارات اور بلغاریہ سمیت 10 ممالک میں نصب ہیں اور اِن ’سرورز‘ کی مدد سے دنیا بھر میں جاسوسی کا نظام پھیلا ہوا ہے‘ جس کی باقاعدہ مارکیٹنگ بھی ہو رہی ہے۔