آئین ریاست کی وہ روح ہے جس نے عوام اور ریاست کے درمیان غیر متزلزل تعلقات کو یقینی بنایا ہوا ہے۔1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی تقریبات8 اپریل 2023 سے شروع ہیں،1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی تقریبات کا مقصد آئین پاکستان کی اہمیت کو اُجاگر اور آئین کے معماروں کو خراج تحسین پیش کرناہے آئین ہی وہ واحد دستاویز ہے جس پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ آئین پاکستان کا قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک ساتھ جشن منایا جا رہا ہے۔اس سے قبل وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات محترمہ مریم اورنگزیب نے شرکا کو وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے گولڈن جوبلی تقریبات کے حوالے سے ٹاک شوز کی شروعات سمیت اٹھائے گئے دیگر اقدامات سے آگاہ کیا۔ بعد ازاں سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گولڈن جوبلی تقریبات کا مقصد آئین پاکستان کی اہمیت کو اُجاگر کرنا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آئین وہ دستاویز ہے جس نے ہم سب کو متحد رکھا ہوا ہے۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کا کہنا ہے کہ سینیٹ کی گولڈن جوبلی 1973 کے آئین کے معماروں کے اعتراف اور خراج تحسین کا ایک مناسب موقع ہے، جنہوں نے پاکستان کی تخلیق کے بنیادی مقاصد میں سے ایک کے مطابق سینٹ کا تصور پیش کیا،چیلنجوں کے باوجود پاکستان کا آئینی سفر پاکستان کے عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کی جمہوریت، انسانی اور اقلیتی حقوق، سماجی انصاف، مساوات، مساوات اور صوبائی خودمختاری کے اصولوں سے مسلسل وابستگی کی عکاسی کرتا ہے،سینیٹ بحیثیت ایک ادارہ فیڈریشن کو مضبوط کرنے، قومی ہم آہنگی اور اتحاد کو یقینی بنانے اور شراکتی وفاقیت کے ذریعے ایک جامع، نمائندہ اور متوازن پارلیمانی نظام کو فروغ دینے کے لیے ایک مستقل کوشش رہا ہے۔ان کہنا تھا کہ اگرچہ یہ ایوان بالا کے 50 سال کے سنگ میل کی نشاندہی کرتا ہے، لیکن اس کا مقصد واقعی ایک تاریخی اور راہ متعین کرنے والے سفر کا جشن منانا ہے جس کا آغاز پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا نے نصف صدی قبل کیا تھا۔ان کہنا تھا کہ آئین نہ صرف اس نسل کے لیے بنایا جاتا ہے جو اسے نافذ کرتی ہے بلکہ اس کے بعد آنے والی نسلوں کے لیے بھی ہوتا ہے اور اس میں لچک اور گنجائش ہونی چاہئے کہ آنے والی نسلیں اپنی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق ترمیم کر سکیں۔ اس سے پاکستان کی آئینی ترقی کی وضاحت پہلی دستور ساز اسمبلی کی طرف سے منظور کردہ قرارداد مقاصد سے ہوتی ہے۔نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد، ملک کے لئے لازمی تھا کہ وہ ایک ایسا آئین اپنائے جس میں تبدیلی کا وعدہ کیا گیا ہو تاکہ پرانے نظام سے وراثت میں ملنے والی تفاوتوں اور عدم مساوات کو دور کیا جا سکے۔پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس 10 اگست 1947 کو کراچی میں ہوا۔ان کہنا تھا کہ اسمبلی کو آئین پاکستان کی تشکیل کا کام سونپا گیا۔ اس نے 12 مارچ 1949 کو قرار داد مقاصد منظور کی جس میں اصول وضع کیے گئے جو بعد میں پاکستان کے آئین کا اہم حصہ بن گئے اور اب بھی اس کی تمہید کے طور پر کام کرتے ہیں۔چئیرمین سینٹ نے کہا کہ دوسری آئین ساز اسمبلی نے 29 فروری 1956 کو پاکستان کا پہلا آئین منظور کیا، جسے 23 مارچ 1956 کو نافذ کیا گیا، جس میں ایک ایوانی مقننہ کے ساتھ پارلیمانی طرز حکومت فراہم کیا گیا۔ اس طرح قائم ہونے والی قومی اسمبلی کا پہلی بار 25 مارچ 1956 کو اجلاس ہوا۔ 1956 کے آئین کے بعد 1962 کے آئین کی پیروی کی گئی، جس نے ایک ایوانی مقننہ کے ساتھ دوبارہ صدارتی طرز حکومت فراہم کیا۔انہوں نے کہا کہ1970 کی اسمبلی نے 1973 کا آئین تیار کیا جو 10 اپریل کو منظور کیا گیا تھا، جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل دو ایوانی مقننہ کے ساتھ پارلیمانی طرز حکومت فراہم کی گئی تھی۔ان کہنا تھا کہ سینٹ کی گولڈن جوبلی 1973 کے آئین کے معماروں کے اعتراف اور خراج تحسین کا ایک مناسب موقع ہے جنہوں نے پاکستان کی تخلیق کے بنیادی مقاصد میں سے ایک کے مطابق سینیٹ کا تصور پیش کیا۔ان کہنا تھا کہ قانون سازی،نگرانی اور نمائندہ عمل میں وفاق کی اکائیوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ کسی بھی تعطل سے قوم کی رہنمائی کے لیے سینیٹ کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔آئین پاکستان کواسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین مجریہ 1973 کہاجاتا ہے۔ مارشل لا ہٹائے جانے کے بعد نئی حکومت کے لئے سب سے زیادہ اہم کام نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا تھا۔ اس دور میں قائم کمیٹی کے اندر ایک اختلاف یہ تھا کہ ملک میں پارلیمانی نظام ہونا چاہئے یا صدارتی؟ صوبائی خود مختاری کے معاملے پر بھی مختلف خیالات تھے۔ آئینی کمیٹی کو رپورٹ تیار کرنے میں آٹھ ماہ لگ گئے اور بالآخر 10 اپریل 1973 کو اس نے آئین کے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی۔ وفاقی اسمبلی میں اکثریت یعنی 135 مثبت ووٹوں کے ساتھ اسے منظور کر لیا گیا اور 14 اگست 1973 کو یہ آئین پاکستان میں نافذ کر دیا گیا۔ابھی آئین پاکستان کو نافذ ہوئے ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ 4 مئی 1974 کو پہلی ترمیم کی گئی جس میں پاکستان کی سرحدوں کا ازسر نو تعین کیا گیا۔ دوسری ترمیم 7ستمبر 1974، تیسری 18 فروری 1975،چوتھی21 نومبر1975، پانچویں 5ستمبر1976،چھٹی 22 دسمبر 1976 اور ساتویں ترمیم 1977 میں کی گئی۔ پھرمشہور زمانہ آٹھویں ترمیم 1985 میں نافذ العمل ہوئی جس کی رو سے حکومتِ پاکستان پارلیمانی طرزِ حکومت سے جزوی صدارتی طرزِ حکومت میں تبدیل ہو گئی اور صدر پاکستان کو بھرپور آئینی قوت اورکئی اضافی اختیارات میسر آگئے۔ یہ اختیارات ذیلی حصہ 2 (ب) کے آرٹیکل 58 میں شامل ہوئے جس کے تحت صدر پاکستان کو یہ اختیار بھی مل گیا کہ وہ پاکستان کی قومی اسمبلی کو تحلیل وزیر اعظم اور کابینہ کو فارغ کر سکتے تھے۔آئین پاکستان میں بہت ساری ترامیم کے بعد بھی اسے1973 کا آئین کہا جاتا ہے؛ 17اپریل 1972 کو قومی اسمبلی نے حکومت اور اپوزیشن کے 25ارکان پر مشتمل آئین ساز کمیٹی تشکیل دی جس کے چیئر مین محمود علی قصوری تھے۔ اپوزیشن کی جانب سے دیگر ارکان کے علاوہ پروفیسر غفور احمد اور سردار شیربازخان مزاری بھی کمیٹی میں شامل کئے گئے۔ 1973 کے آئین کے ڈرافٹ کو 20اکتوبر1972 کو حتمی شکل دیکر قومی اسمبلی کے حوالے کیا گیا۔10اپریل1973 کو اسمبلی میں منظوری دی گئی،12اپریل کو صدر نے توثیق کی اور 14اگست 1973 کو نافذ کیا گیا آئینی کمیٹی 1973 کے تاریخی آئین کا دستاویز تیار کرنے والی آئینی کمیٹی میں تین خواتین ارکان نسیم جہاں بیگم,جینیفر قاضی اور بیگم اشرف عباسی شامل ہیں:۔آئین پاکستان کو پاکستان کا دستور اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین مجریہ 1973 بھی کہتے ہیں۔ مارشل لا کے اٹھنے کے بعد نئی حکومت کے لیے سب سے زیادہ اہم کاموں میں سے ایک نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا تھا۔1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 1972 کو 1970 کے انتخابات کی بنیاد پر اسمبلی بنائی گئی۔ ایک کمیٹی مختلف سیاسی جماعتوں کے کراس سیکشن سے قائم کی گئی۔ اس کمیٹی کا مقصد ملک میں ایک نیا آئین بنانا تھا جس پر تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہوں۔ کمیٹی کے اندر ایک اختلاف یہ تھا کہ آیا کہ ملک میں پارلیمانی اقتدار کا نظام ہونا چاہیے یا صدارتی نظام۔ اس کے علاوہ صوبائی خود مختاری کے معاملے پر مختلف خیالات تھے۔ آٹھ ماہ آئینی کمیٹی نے اپنی رپورٹ تیار کرنے میں صرف کیے، بالآخر 10 اپریل 1973 کو اس نے آئین کے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی۔ وفاقی اسمبلی میں اکثریت یعنی 135 مثبت ووٹوں کے ساتھ اسے منظور کر لیا گیا اور 14 اگست 1973 کو یہ آئین پاکستان میں نافذ کر دیا گیا۔