راستے بند کرنا تو کوئی ان سے سیکھے۔جس طرف جاؤ جس گلی سے شارٹ کٹ لگا کر گزرنے کی کوشش کرو وہاں لوہے کا گیٹ لگا ہوگا۔اتنا راستہ ہوگا کہ وہاں پیدل بندہ گزر جائے گا مگر موٹر بائیکل کا گزرنا اہلِ محلہ نے ناممکن بنا رکھا ہوگا۔تین چار روز قبل جس راہ سے گزرے ہوں گے آج آپ وہاں سے گزر نہیں پائیں گے۔ کیونکہ وہاں لوہے کا گیٹ لگا کر اس کو نوگو ایریا بنا دیا گیا ہوگا۔ہمارے پشاور میں گلی گلی ہر محلے میں یہی نو گو ایریا قائم ہیں۔ بھلا چنگا راستہ لوہے کی باڑ لگا کر محدود کر دیا ہوگا۔پہلے تو ایسا نہیں تھا ہرطرف جایا جا سکتا تھا۔جس طرف منہ اٹھا کر چلے جاتے نکل جاتے۔کوئی باڑکوئی سیمنٹ کا بلا ک اور کوئی لوہے کی زنجیر نہیں ہوا کرتی تھی۔بندہ جلتا کڑھتا ہے۔چھوٹا سا راستہ اور راستے میں لوہے کے گیٹ کی رکاوٹیں ہیں۔ اس طرح کہ بندہ دور سے ہوکر آئے وقت الگ ضائع ہو اور دل جداجلنے لگے۔راستے تو کھولنے کا حکم ہے۔راہ میں جو عمارت جو رکاوٹ آئے اس کو گرا دینا چاہئے۔مگر عوام کا راستہ نہیں بند کرنا۔کسی گلی میں اگر کوئی گھر بن رہا ہے اور وہاں سے ٹریفک بھی گزررہی ہے تو یہ وہ راستہ بندکر دیں گے۔تاکہ جو سہولت ان کو حاصل ہے اس میں خلل نہ پڑے۔جو راستے کس وجہ سے سرکار نے بند کردیئے ہیں وہ تو موجود رہیں مگر رکاوٹوں کو اُڑا دیا جائے۔غیر ضروری باڑ لگا کر از خود بند کئے گئے راستوں کو بحال کیا جائے۔کہیں دو رویہ گلی کو دو طرفین بند کر کے اندر بیڈمنٹن کورٹ بنا دیا گیا ہے اور کہیں اندر حصار قائم کر کے جیسے جیل کے اندر قیدی خوش ہوں یہ لوگ کرکٹ کھیل رہے ہیں۔پھر اگر کہیں راستہ کھلا بھی ہے تو اس لئے وہاں جانا ممنوع ہے کہ وہاں بڑے گٹر کا ڈھکن نہیں ہے۔اس لئے وہاں سے گزرنا دشوار ہے۔ ایسے میں کون اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالے گھرکے آگے سڑک پر بجری کا بھرا ہوا ٹرک انڈیل دیں گے۔یہ نہیں دیکھیں گے اینٹوں کے اس ڈھیر کی وجہ سے ٹریفک متاثر ہوگی۔کوئی بچ بچا کرکہاں سے کوئی کہاں سے نکلے گا۔سو راستوں کو بند کرناکسی بھی طرح مناسب نہیں مگریہ سب کچھ عرصہ دراز سے ہورہا ہے۔