میڈیا کوریج میں احتیاط

 سچ تو یہ ہے کہ  انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ سے دنیا بھر میں میڈیا نے ناقابل تصور ترقی کی ہے کچھ عرصے سے ٹیلی ویژن ہر گھر کی ویسے بھی ضرورت بن چکا تھا پر اب تو منی سکرین کی شکل میں موبائل سیٹ ہر فرد کے ہاتھ کا ایک لازمی جزبن چکا ھے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر جدید ٹیکنالوجی سے جہاں بنی  نوع انسان کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور اس کی زندگی کئی لحاظ سے سہل ہو رہی ہے، وہاں اس کے منفی پہلو اگر ایک طرف اس کو جسمانی بیماریوں میں مبتلا کر رہے ہیں تو دوسری طرف انسان ذہنی انتشار کا شکار بھی ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر جس قسم کی خبریں چلتی ہیں اور جس طرح انتشار اور تشویش کے پہلو ہر خبر میں نمایا ں ہیں ان سے معلومات میں اضافے کی بجائے تشویش اور ڈپریشن میں اضافہ ہوتا ہے۔اس جملہ معترضہ کے بعد چند دیگر اہم امور کا ذکر ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ قطع نظر اس بات  کے کہ امریکہ ایک سپر پاور ہے اور وہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس بھی  ہے پر جہاں تک سیاسی فہم و ادراک کا تعلق ہے جہاں تک تاریخ پر گہری نظر کی بات ہے وہ برطانیہ کا عشر عشیر بھی نہیں، جتنا برطانوی سیاستدان وسطی ایشیا اور برصغیر بشمول افغانستان کے مسائل اور وہاں پر بسنے والے لوگوں کی نفسیات سے بلد ہیں اتنا امریکن باخبر نہیں ہیں اسلئے اگر 1970 کے اواخر میں  افغانستان پر فوج کشی کرنے سے پہلے امریکن فرنگیوں سے مشاورت کرتے تو وہ افغانستان کی دلدل میں اس قدر نہ پھنستے کہ جتنے وہ اس میں پھنسے رہے۔ قارئین کو یادہوگا کہ گو کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران یورپ کے کئی ممالک ہٹلر کے خلاف اکھٹے ہو کر لڑ رہے تھے پر اس جنگ کے دوران  امریکی صدر روزویلٹ، فرانس کے سربراہ جنرل ڈیگال اور دیگر مغربی رہنما بشمول جنرل آئزن ہاور اس جنگ کے بارے میں جو فیصلے بھی کرتے ان میں چرچل کی بات کو حرف آخر سمجھا جاتا امریکہ کی ڈپلومیسی کئی جگہوں پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ماضی قریب میں کوریا اور  ویت نام کی جنگوں میں بھی امریکہ کو سبکی کا سامنا کرنا پڑ۔ دوسری جنگ عظیم میں جو فیصلے بھی کئے جاتے ان میں چرچل کی راے کو کافی اہمیت دی جاتی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کا حدف یہ تھا کہ کسی نہ کسی طریقے سے سویت یونین کے حصے بخرے کئے جائیں اس مقصد کے واسطے اس نے نیٹو کا عسکری ڈھانچہ کھڑا کیا اور دنیا بھر میں کمیونزم کے خلاف سرد جنگ لڑی سویت یونین نے نیٹو کے مقابلے کے لئے وارسا پیکٹ کے نام سے ایک عسکری ادارہ بنایا امریکہ کی سازشیں بالآخر اس وقت رنگ لائیں جب سوویت یونین ٹوٹا،امریکہ کی شومئی قسمت دیکھئے کہ یک نہ شد دو شد سوویت یونین ٹوٹ تو گیا پر چین کی شکل میں نظریاتی طور پر  اس سے زیادہ مضبوط ملک عالم وجود میں آ گیا،جو اب اسے لوہے کے چنے چبوارہا ہے امریکہ کو اب روس کے پیوٹن کا بھی سامنا ہے کہ جو اس زمانے میں سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کا سربراہ تھا کہ جب امریکہ سویت یونین کو توڑنے کے درپے تھا اس لئے اسے فرسٹ ہینڈ ان تمام امریکی ریشہ دوانیوں کا پتہ ہے کہ جن کو امریکہ نے بروے کار لا کر سویٹ یونین کو توڑا۔