سماجی زندگی کی اہمیت

مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد نے اپنی ایک نشری تقریر میں بیان کرتے ہیں کہ”اس مادی زندگی میں جس میں بار بار آپکے دوست و احباب‘ عزیز و اقارب مادہ پرستی کی بات کرتے ہیں کہ جی پاکستان میں لوگ بہت مادہ پرست ہوگئے ہیں‘لوگوں میں پہلی سی محبت‘پیار اور یگانگت نہیں رہی‘ مادہ پرستی کا کھیل صرف پاکستان میں ہی نہیں چلاہے بلکہ ساری کی ساری دنیا اس وقت مادہ پرستی کے چکر میں ہے‘میں ایک ایسے علاقے میں رہا ہوں اور ایسی جگہ جنما پلا ہوں جہاں سانپ بہت ہوتے تھے اور کلر کے سانپ بکثرت پائے جاتے تھے‘ہم بچپن میں جنگل میں جاکر یا ویران اور گرے پڑے گھروں میں سانپوں کی کینچلیاں اکٹھی کرتے تھے‘ کیا آپکو سانپوں کی کینچلیوں کا پتہ ہے؟ سانپ ایک خاص وقت پر سو جاتا ہے اور اس کے جسم کے اوپر ایک پلاسٹک کے شاپر بیگ کی طرح کی باریک کھال یا کینچلی چڑھ آتی ہے اور اس کینچلی کے اندر رہ کر Hibernate کرتا ہے‘ تب نہ وہ سانس لیتا ہے‘ نہ کھانا کھاتا ہے‘ بالکل مردہ یا سدھ بدھ ہو کے پڑارہتاہے‘میں اس Economic world میں جب بھی کینچلی دیکھتا ہوں تو میں غور کرتاہوں کہ ہم سانپ ہیں جو Economics یا پیسے کی دوڑ کے اندر اپنے بدن پر کینچلی چڑھا کے خاموش پڑے ہوئے ہیں‘ ہم بے حس و حرکت ہیں اور ہمارا کوئی بس نہیں چلتا۔ ہمیں Consumer Goods بنانیوالی کمپنیاں جس طرح چاہتی ہیں استعمال کرتی ہیں اور کرتی چلی آرہی ہیں۔ خواتین و حضرات جس بات سے آپ خوفزدہ ہیں زیادہ دیر تک چل نہیں سکے گی کیونکہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب سانپ کو اپنی Growth کیلئے اس کینچلی کے اندر سے نکلنا پڑتا ہے اور وہ کمال سے اور بڑی عجیب و غریب حرکات و سکنات کرکے اپنے بدن کو پرانی ٹوٹی دیواروں سے رگڑ رگڑ اورگھسا گھسا کے باہر نکلتا ہے اور اپنی وہ کینچلی پیچھے چھوڑ جاتا ہے‘ جب وہ باہر نکلتا ہے تو وہ زندگی میں اور زندگی کے دوسرے جانوروں کیساتھ شامل ہوتا ہے۔ سانپ جس طرح اپنی نشوونما کیلئے ایک خاص وقت پر اس خول میں سے نکلتا ہے اور باہر آکر زندگی میں شامل ہوتاہے اور نئے انداز و ڈھنگ اورنئے سرے سے سانس لیتا ہے اسی طرح ہی انسانوں کی یہ ساری بستیاں جو مجموعی طورپر اس وقت اپنی خواہشات کی کینچلی کے اندرلپٹی پڑی ہیں۔ ان کو اپنی گروتھ کیلئے باہر نکلنا ہی پڑے گا اور یہ نکل کے ہی رہیں گی“ اس اقتباس کا حاصل مطالعہ وقت کے تقاضوں کا احساس کرنا  اور بدلتے وقت کے ساتھ اہم آہنگی پیدا کرنا ہے، کیونکہ انسان فطری طور پر سماجی زندگی گزارنے کا خوگر ہے وہ الگ تھلگ رہنے سے جلد بد دل ہوجاتا ہے، کامیاب وہ لوگ ہوتے ہیں جو سماجی طور پر میل جول رکھنے اور دوسروں کے ساتھ روابط استوار رکھتے ہوئے زندگی گزارتا ہے۔ اس طرح زندگی گزارنے والے کو قدم قدم پر سہولتیں اور آسانیاں ملتی ہیں جبکہ مقابلے میں الگ تھلگ رہنے والوں کو قدم قدم پر مشکلات اور مصائب کا سامنا ہوتا ہے جس سے بچاؤ معاشرے میں گھل مل کر ہی ممکن ہے۔ایک وقت تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتے اور ضرورت کی ہر چیز ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے تاہم اب حالات وہ نہیں رہے اور ہر کوئی اپنی ضروریات خود پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسروں سے اپنی ضرورت کا اظہار کرنا برا سمجھتے ہیں۔