اسرائیل کی جانب سے فلسطینی مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ کاروائیاں جیسی جرأت درحقیقت اُس ’اجتماعی بے حسی‘ کا نتیجہ ہے جوعالمی برادری پر طاری ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو اسرائیل کے انسانی جرائم پرعالمی برداری اور پھر خاص طور پر مسلم ممالک کا تجاہل عارفانہ دیکھنے میں نہ آتا اور اسرائیل کے ہاتھ نہتے مسلمان عورتوں اور بچوں کے خون سے رنگین نہ ہوتے۔ توجہ طلب ہے کہ اسرائیل نے اُنیس اکتوبر دوہزاراکیس کے روز ’انسداد دہشت گردی کے قانون 2016ء‘ کے تحت چھ سرکردہ فلسطینی سول سوسائٹی تنظیموں کو دہشت گرد تنظیموں کے طور پر نامزد کیا۔ جس کے بعد اِن تنظیموں کا پیچھا کرنے کی منظوری دی گئی اور ایک فوجی حکم نامے کے ذریعے ’مغربی کنارے‘ میں اسرائیلی فوج نے کاروائیوں کا آغاز کیا۔ سال دوہزاراکیس سے جاری اسرائیل کی فوجی کاروائیوں میں رمضان المبارک کے دوران تیزی دیکھنے میں آتی ہے اور اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہر سال رمضان المبارک کا آخری جمعۃ المبارک ’یوم القدس‘ کے طور پر پوری دنیا میں منایا جاتا ہے اور اِس مرتبہ جمعۃ الوداع کل (چودہ اپریل دوہزارتیئس) کے دن نماز جمعہ کے اجتماعات کے بعد اسرائیل اور اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والی عالمی طاقتوں کرنے والوں کے
خلاف دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی احتجاج کئے جائیں گے اور اِن میں شمولیت جذبہئ ایمانی اور فلسطین سے اظہار یک جہتی کے طور پر ہونا چاہئے کیونکہ فلسطینی مسلمان صرف اپنے حقوق ہی کا نہیں بلکہ امت مسلمہ کے دفاع کی جنگ بھی تن تنہا لڑ رہے ہیں۔سرزمین فسلطین نے ظہور اسلام سے قبل اور ظہور اسلام کے بعد نشیب و فراز دیکھے لیکن یہ بات حقیقت رہی کہ فلسطین ہمیشہ ہی سے دعوت الٰہی کا مرکز رہا اور آسمانی کتب میں بھی ’ارض قدس (فلسطین)‘ کی مرتبت ومنزلت بیان ہوئی ہے۔ قرآن پاک کے مطابق خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر ِمعراج کے دوران اِسی مقام (مسجد) میں رکے اور اِس واقعہ کی تفصیل سورہئ مبارکہ اسرأ میں محفوظ ہے (ترجمہ) ”پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک کی سیر کرائی“ اور یہ بات بھی ذہن نشین
رہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف مسجد اقصیٰ کی سیر ہی نہیں کی بلکہ تبدیلی قبلہ کا حکم آنے سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد الاقصیٰ شریف ہی کی جانب رخ کرکے نماز ادا کیا کرتے تھے۔ تحویل قبلہ کے بعد مسلمانوں کا قبلہ موجودہ ’کعبہ شریف‘ بنا اِس لحاظ سے مسلمانوں کی دلی وابستگی مسجد اقصیٰ سے قائم ہونا ایک فطری ردعمل ہے۔ پہلی جنگ عظیم سے قبل مٹھی بھریہودی یہاں آ کر آباد ہوئے جبکہ اِن سے قبل موجود یہودی آباد کار اپنے ازلی حریف عیسائیوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے سینکڑوں سال سے مسلمانوں کے زیر سایہ بنا کسی خوف و خطر زندگی بسر کر رہے تھے اور اُنہیں ہر قسم کے مذہبی امور ادا کرنے کی اجازت حاصل تھی۔ 1800ء سے قبل فلسطین میں یہودیوں کی آبادی ’چھ ہزار سات سو‘ تھی لیکن برطانیہ اور امریکہ کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی (سازش) کے تحت دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں اکٹھا کیا گیا جس کے بعد 1915ء میں فلسطین میں آباد یہودیوں کا تعداد ستاسی ہزار پانچ سو تک پہنچ گئی اور یہ تعداد بتدریج بڑھتی گئی یہاں تک کہ 1947ء تک فلسطین میں چھ لاکھ تیس ہزار یہودی آباد کر دیئے گئے تھے۔ اِس قدر بڑی آبادی کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے بعد 1948ء میں برطانیہ اور امریکہ پشت پناہی سے صیہونی ریاست ”اسرائیل“ کے قیام کا اعلان کیاگیا۔ ذہن نشین رہے کہ پہلی جنگ عظیم وہ دور تھا جب اسلام دشمن قوتوں نے ارض مقدس فلسطین پر یہودی ریاست کی تشکیل کا منصوبہ بنایا۔ اِس منصوبہ کا ماسٹر مائنڈ برطانیہ اور امریکہ تھا‘ 14 مئی 1948ء کے روز ’صیہونی ریاست‘ کے قیام کو عملی جامہ پہنایا گیا اور مسلمانوں کے قلب میں اسرائیل نام کی غاصب اور غیر قانونی ریاست کے وجود کا اعلان کر دیا گیا اور امریکہ وہ پہلا ملک تھا جس نے 14 مئی 1948ء ہی کے روز اسرائیل کی حکومت کو تسلیم کیا جسے بعدازاں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا اور یوں فلسطین کو تقسیم کرنے کا منصوبہ منظور کرکے مسلمانان عالم کو اقوام متحدہ نے اپنا حقیقی چہرہ دکھایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اپنے قیام سے آج تک‘ اسرائیل کا وجود حقوق بشر کے تابوت میں آخری کیل اور انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ ثابت ہوا۔
عالمی سطح پر یوم القدس“ منانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ فلسطینی عوام کی حمایت اور مسلمانوں کے مقدس مقامات میں قبلہ کا درجہ رکھنے والی مسجد اقصیٰ کی بازیابی ممکن بنائی جا سکے۔