یہ گاڑیوں والے 

 جن کو قدرت نے گاڑی سے نوازا ہے۔پھر جتنی ب ڑی چار پایہ گاڑی ہو اتنا ہی ان کا دل بڑا ہونا چاہئے۔ پھر صبر بھی تو قدرت کی طرف سے تخلیق کر دہ ہے۔جتنی گاڑی بڑی ہو اتنا بھی صبر زیادہ ہونا چاہئے۔ یہ بیچارے سڑک کے بیچ کھڑے رہ جاتے ہیں اور ان کے پہلو میں سے ہو کرجھپاک سے  موٹر سائیکل والے بجلی کی تیزی سے گزر جاتے ہیں۔ پھر وہ گزر تو جاتے ہیں مگر راستہ ہو نہ ہو یہ بائیک سواروں کا مسئلہ نہیں۔ وہ تو اپنے گھوڑے کو سمندر تو کیاسڑک کے فٹ پاتھ پر بھی دوڑا دیتے ہیں۔ پھر پیدل چلنے والوں کی راہ کو کچلتے ہوئے کہاں سے کہا ں نکل جاتے ہیں۔کبھی ان گاڑی والوں کے بغل میں چنگ چی والے یوں گزرتے ہیں جیسے خلائی شٹل خلا میں تیرتی ہوئی گزرنے لگے۔پھر رکشہ والوں کو تو چھوڑو وہ تو اچانک موڑ کاٹ کر پتلی گلی سے ہوکر دم یہاں اور خود انھوں نے اگلے بازارمیں سر نکال لیا ہوتا ہے۔پھر خدا لگتی بات ہے کہ گاڑیاں بھی تو اتنی زیادہ ہو چکی ہیں کہ ان کو پارک کرنے کے بندوبست بھی دھرے کے دھرے رہ چکے ہیں۔کوئی جگہ باقی نہیں بچی جو اس شہر میں پارکنگ کے نام سے یاد کی جائے۔ جہاں دیکھو سڑک کے کنارے آڑھے ترچھے انداز میں گاڑیاں کھڑی نظر آتی ہیں اور اتنی بہتات سے ہیں کہ آپ کا راستہ ختم ہو جائے گا اور گھر تک بھی پہنچ جائیں گے مگر سڑک کنارے گاڑیوں کی یہ ریل گاڑی کے ڈبے ختم ہونے ہی میں نہیں آئیں گے۔گاڑی والوں کو جب گاڑی ملی ہے تو ان کو صبر بھی ملا ہے۔ان پر مجھے ترس آتا ہے۔مگر دوسری طرف یہ بھی ہے کہ ان کی گاڑیاں خدا رکھے اتنی بڑی ہوتی ہیں کہ پوری سڑک کو گھیر لیتی ہیں۔پھر کوئی مائی کا لعل گزر کر دکھائے۔ ایسے میں جب کہ رش ہو جاتا ہے تو اس وقت یہ عالم بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ گاڑی والے جب آگے نکلناچاہتے ہیں اور آگے نکل نہیں پاتے۔ اس لئے ان میں سے بعض  گاڑی والے  حسد کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ بھلا چنگا موٹر سائیکل والا ان کے پاس سے گزر سکتا ہے مگر یہ اس تھوڑے سے گیپ کو گاڑی جان بوجھ کر آگے بڑھا کر پُر کر لیتے ہیں اور اس کو اپنے ساتھ وہاں لٹکا دیتے ہیں۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب میں آگے نہیں جا سکتا تو تم کو بھی آگے جانے نہیں دوں گا۔ لیکن یہ ضد انتہائی عارضی ہوتی ہے۔بھلا موٹر سائیکل کو بھی کوئی اس رش میں روک سکاہے۔کیونکہ صیاد تو اک دیوانہ ہے۔توڑ کے پنجرہ پنچھی کو اڑ جانا ہوتا ہے۔پھر ٹریفک کے رش میں تو میں موٹر بائیک کو رش کا جہاز کہتا ہوں۔ جیسے کہ اونٹ کو ریت کا جہاز کہتے ہیں۔ اونٹ خالی سڑک پر اتنا تیز نہیں دوڑسکے گا جیسے گھوڑا دوڑتا ہے۔مگر اونٹ صحرا میں یوں بھاگے گا جیسے موٹرسائیکل شہر کے اندرون میں رش کے اندر بھاگم دوڑی کر رہا ہے۔اس لئے گاڑی والوں کو بڑے دھیرج سے گاڑی چلانا ہے۔اگر رش ہے تو بس آرام آرام سے آؤ جب تک آپ اپنی منزل پر پہنچیں گے اس وقت تک تو موٹر سائیکل والا شہر کے پانچ پھیرے لگا چکا ہوگا۔کیونکہ اس کو کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح کو ئی اپنا ہاتھ آگے کر کے روک نہیں سکے گا۔ موٹر سائیکل والے کو خواہ کوئی بوڑھا چلا رہا ہو روک کر صرف کوئی بات ہی کرنا مشکل ہو جاتاہے۔وہ تو ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں۔آن کے آن میں یہاں سے وہاں پہنچ جاتے ہیں جہاں آپ کو پہنچ جانے میں زمانے لگ جائیں۔ لہٰذا گاڑی والوں کا دل بڑا ہونا چاہئے۔ صبر زیادہ ہونا چاہئے۔حوصلہ پہاڑ جیسا ہونا چاہئے۔ کیونکہ گاڑی تو چوک شادی پیر سے آگے کریم پورہ بازار میں نہیں گھس سکتی او رنہ شاہین بازار کے اندر سفر کرسکتی ہے او رنہ ہی مینابازار میں سے ہو کر جا سکتی ہے۔