معاشی عروج و زوال

انسانی ترقی کا لب لباب یہ ہے کہ اِس کی ”پیداواری صلاحیت“ بیدار رہے اور اِس میں اضافہ بھی ہوتا رہے لیکن اِس کے باوجود دنیا کو لاحق مشکلات اور بحرانوں کا حل موجودہ ’عالمی معاشی ماڈل‘ کے پاس نہیں کہ یہ غربت اور انتہائی غربت کا انسداد کرتے ہوئے اِس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے عملاً قابل ہو‘ یہاں تک کہ عالمی سیاسی معیشت کو سنبھالنے میں مدد کرنے والے ادارے جیسا کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف دو حقیقتوں کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ایک تو دنیا میں وسائل کی کمی نہیں اور دوسرا دنیا سے غربت کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ توجہ طلب ہے کہ عالمی سطح پر آبادی کا ”بڑا حصہ“ انتہائی غربت میں زندگی بسر کر رہا ہے جنہیں مناسب خوراک‘ پینے کے صاف پانی‘ صفائی ستھرائی‘ بنیادی صحت و تعلیم کی سہولیات جیسی بنیادی انسانی ضروریات تک رسائی حاصل نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سال 2020ء کے دوران عالمی سطح پر‘ کورونا وباء کی وجہ سے سات کروڑ لوگ ’انتہائی غربت‘ کا شکار ہوئے۔ عالمی بینک نے اپنی تازہ ترین رپورٹ بعنوان ’غربت اور مشترکہ خوشحالی‘ میں عالمی سرمائے کی تقسیم کے حوالے سے صورتحال و کارکردگی کا جائزہ پیش کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے سرمایہ دار رحمدلی کا مظاہرہ نہیں کر رہے‘ جب تک انسانوں کی اپنے ہی جیسے انسانوں کے بارے میں ہمدردی کے جذبات پیدا نہیں ہوں گے اُس وقت تک غربت میں کمی یا اِس کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔ اِس مرحلہئ فکر پر دنیا کو اسلام کے معاشی نظام بالخصوص صدقات و خیرات اور زکوٰۃ و خمس کو دیکھنا چاہئے کہ کس طرح سرمائے کو جمع کرنے کی ممانعت نہیں لیکن اُس میں سے غریبوں کی کفالت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اسلام نے سود کو حرام اور سرمائے و دیگر وسائل پر سانپ بن کر بیٹھنے کو بھی ممنوع قرار دیا ہے‘ ماہرین معاشیات یہی ممانعت آج کی دنیا میں لاگو کرنے سے اتفاق کر رہے ہیں۔ماہرین معیشت کسی ملک کی معاشی ترقی کو اُس کے ہاں ہونے والی پیداواری شرح نمو (جی ڈی پی جسے مجموعی معاشی پیداوار بھی کہا جا سکتا ہے) میں اضافے کے طور پر دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اِس کے ذریعے غربت یا معاشی عدم مساوات جیسے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن صورتحال قطعی برعکس ہے کہ اگر غریب ممالک کی دولت میں اچانک مصنوعی طریقے سے اضافہ کر دیا جائے تب بھی اِن ممالک میں رہنے والے غریب و پسماندہ طبقات کی کفالت ممکن نہیں ہو سکے گی کیونکہ وسائل حکومت اور حکومتی فیصلہ سازوں کے علاؤہ اُن خاص طبقات کے ہاتھوں میں محدود رہیں گے جو قومی وسائل پر تصرف کو صرف اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ اِس کی ایک مثال پینے کے صاف پانی کی فراہمی ہے کہ کم آمدنی رکھنے والے طبقات کو پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کیا جاتا لیکن قدرت کے فراہم کردہ پانی کا ایک خاص طبقہ بطور کاروبار اور جنس استعمال کرتا ہے اور اب جسے صحت بخش صاف پانی چاہئے تو اُسے اِس کے لئے قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ صاف پانی کے لحاظ سے جاری کردہ عالمی درجہ بندی کے مطابق 179 ممالک میں پاکستان 144ویں جبکہ بھارت 129ویں‘ ایران 70ویں‘ چین 54ویں اور افغانستان 127ویں نمبر پر ہے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ صاف پانی کی فراہمی میں پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک سے کتنا پیچھے ہے! یہ عالمی تحقیق امریکہ کی یئل  یونیورسٹی نے کی ہے دنیا کا مسئلہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ وسائل کی تقسیم میں ’عدم مساوات‘ ہے اِس سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک نسبتاً زیادہ متاثر ہیں‘  غیرسرکاری عالمی تنظیم ’آکسفیم‘ کے مطابق کورونا وباء کے آغازسے اب تک پیدا ہونیوالی نئی دولت کا تقریباً دو تہائی حصہ براہ راست انتہائی امیر افراد کی جیبوں میں پہنچا ہے لہٰذا ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو دنیا کے معاشی طاقتوروں کی اجارہ داری ختم کرے‘ بین الاقوامی قرض دینے والی ایجنسیوں (ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف) کی جانب سے دنیا کو جس ’مشترکہ خوشحالی‘ کا پیغام دیا جاتا ہے‘ اُس کے زبانی تذکرے سے زمینی حقائق  تبدیل نہیں ہوں گے بلکہ دولت اور قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم پر توجہ دینا ہوگی‘ یہی تدبیر و حکمت معاشی انصاف و معاشی بحالی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔