فائر بریگیڈ سسٹم کی نا گفتہ بہ حالت 

وطن عزیز میں فائر بریگیڈ سسٹم کو ترقی دینے کی اشد ضرورت ہے، ابھی تو یہ صورتحال ہے کہ کسی بھی میونسپل ادارے میں یہ موجود نہیں ہے اور اگر کسی جگہ نظر آ تا بھی ہے تو اس کا اس قدر برا حال ہے کہ اس سے منسلک فائر فائٹرز کے پاس آگ بجھانے اور آگ کے شعلوں سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے ضروری سازو سامان نہیں ہے، کسی کے پاس اگرہیلمٹ نہیں تو کسی کے پاس دوسری ضروری اشیاء کی کمی ہے۔اسی وجہ سے فائر فائٹرز آگ بجھاتے ہوئے خود بھی اکثر لقمہ اجل بن جاتے ہیں جس طرح کہ اگلے روز کراچی میں آگ بجھانے کی کوشش میں ایک ادارے کا فائر فائٹر جان بحق ہو گیا بنیادی طور پر تو ہر ضلع میں فائر بریگیڈ سسٹم کو چوبیس گھنٹے بحال رکھنا وہاں کے میونسپل کارپوریشن یا کمیٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے پر بڑے بڑے کمرشل اداروں نے بھی اپنے دفاتر کو ناگہانی آگ لگنے کی وجہ سے نقصان سے بچانے کیلئے اپنا علیحدہ بندوبست کیا ہوتا ہے، پر تجربہ یہ بتاتاہے کہ کسی جگہ بھی ایسا مانٹرینگ سسٹم موجود نہیں جو باقاعدگی سے یہ چیک کرتا رہے کہ اس سسٹم میں تعینات اہلکار ڈیوٹی پر چوبیس گھنٹے موجود ہیں اور یہ کہ وہ آگ بجھانے کے تمام سازو سامان سے مکمل طور پر لیس ہیں اور ان کے پاس پانی اور آگ بجھانے کیلئے دیگر کیمیکلز وافر تعداد میں موجود ہیں ہم آخر کیوں اس ضمن میں غفلت برت کر ہزاروں زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں وقت کا تقاضا ہے کہ لوکل گورنمنٹ کے متعلقہ قانون میں ترمیم کر کے ملک کے اندر فائر فائٹنگ سسٹم fire fighting system کو ترقی یافتہ ممالک کیطرز پر استوار کیا جائے ایسا کرنے کے بعد ہی ہم سرکاری اور نجی املاک کو آگ کے شعلوں سے بچا سکتے ہیں اور ان میں کام کرنے اور رہائش اختیار کرنے والوں کو آگ لگنے کی وجہ سے جانی نقصان کے خطرات کو کم کرسکتے ہیں۔ اب کچھ دیگر اہم امور کا تذکرہ ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں، غالب امکان ہے کہ اس کالم کی اشاعت تک پاکستان اور روس کے درمیان پاکستان کو روسی تیل کی سپلائی کا معاہدہ ہو چکا ہو اگر روس سے 42 سے 48 ڈالرز فی بیرل تیل مل سکتا ہے تو یہ حکومت وقت کی بہت بڑی کامیابی ہو گی عوام حکومت سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ اگر پاکستان کو سستے نرخ پر پٹرول ملے گا تو اس اس کے ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچنے ضروری ہیں اور وہ تمام اشیا ء صرف جن کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت میں اضافے سے بڑھتی ہیں ان کی قیمتوں میں ازخود تاجروں کو کمی کرنی چاہئے‘بعد از خرابی بسیار وزارت داخلہ نے انجام کار ایک اچھا کام کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اب اگر اس ملک کے اندر آیا ہوا کوئی افغانی پاکستان کے کسی بھی شہر جانا چاہے گا تو پہلے جس شہر میں وہ ٹھہرا ہوا ہے اس کے پولیس سٹیشن میں جا کر رپورٹ کرے گا کہ وہ فلاں فلاں شہر جا رہا ہے اور جب وہ مطلوبہ شیر پہنچ جائے گا تو وہاں اس پولیس سٹیشن میں جا کر اپنے آنے کی رپورٹ دے گا۔پر اس ضمن میں جو سب سے ضروری بات ہے وہ یہ ہے کہ کس بھی افغانی کو پاکستان بغیر ویزا کے آ نے نہ دیا جائے اور پھر وزارت داخلہ ایک ایسا میکنیزم بنائے کہ اس کی سو فیصد تسلی ہوکہ جو افغانی پاکستان ویزے کے ذریعہ داخل ہوا ہے وہ ویزے کی میعاد کے اختتام پر واپس اپنے ملک جا چکا ہے۔