مصنوعی ذہانت رفتہ رفتہ اپنی جگہ بنا رہی ہے اور یہ انسانی تاریخ کے سفر میں وہ ارتقائی موڑ ہے جو معاشی سرگرمیوں‘ روزمرہ معمولات‘ درس و تدریس‘ تحقیق و تالیف‘ علاج معالجے حتیٰ کی عدل و انصاف تک رسائی کے اسلوب و مستقبل کے لئے نئی سمت کا تعین کرے گا۔ دنیا چیٹ جی پی ٹی‘ مڈجرنی اور سٹیبل ڈسفیوژن جیسے نئے مصنوعی ذہانت کے پروگراموں کا تجرباتی ماڈلز (beta versions) کا استعمال کر رہی ہے اور یہ تجربہ کسی حد تک کامیاب و خوشگوار بھی ہے کہ اب انسانی بیان و اظہار اِس تبدیلی سے متاثر دکھائی دینے لگا ہے لیکن اِس پوری کوشش نے جس ایک تنازعے کو جنم دیا ہے وہ یہ ہے کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کا استعمال کرتے ہوئے جب کوئی بھی تحریر یا تصویر (عکس یا مصوری) تخلیق کی جاتی ہے تو صارف اُس کی ملکیت کا دعویٰ کر سکتا ہے یا نہیں۔ کمپیوٹروں کی مصنوعی ذہانت اپنی جگہ لیکن اِس ذہانت سے استفادہ کرنے کے لئے انسان جس ذہانت کا استعمال کر رہے ہیں اُس کی وقعت اور اہمیت کا تعین کرنا ابھی باقی ہے۔
ٹیکنالوجی سے متعلق قوانین محدود ہیں اور اِس سے بھی زیادہ محدود تعداد میں قانونی ماہرین ٹیکنالوجی کے روپ بہروپ اور اِس کی صلاحیتوں سے بے خبر ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ مصنوعی ذہانت کے متعارف ہونے سے قبل ڈیجیٹل تخلیق کاروں کے کام کو تحفظ دینے کے لئے امریکی تنظیم ’کریٹیو کامنز‘ نے کچھ قواعد و ضوابط متعارف کروائے تھے اور اُن پر آج بھی عمل درآمد ہو رہا ہے تاہم مصنوعی ذہانت کے متعارف ہونے کے بعد ’کریٹیو کامنز‘ کہلانے والے فن پاروں کی ملکیت کے ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ دعویدار سامنے آ رہے ہیں اور اِس دلچسپ صورتحال سے مالی فائدہ اُٹھانے کے لئے امریکہ اور دیگر ٹیکنالوجی میں تحقیق کرنے والے ممالک اپنے اپنے حل پیش کر رہے ہیں جن کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ مصنوعی ذہانت سے فائدہ اُٹھانے والے صارفین اور مصنوعی ذہانت تخلیق کرنے والے اداروں کو مشترکہ طور پر مالکانہ حقوق (کاپی رائٹ) دیئے جائیں اور صرف یہی ایک صورت اِس تازہ ترین ڈیجیٹل ملکیتی تنازعے کو حل کرنے میں مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں مصنوعی ذہانت اور کاپی رائٹس کے حوالے سے تاحال قومی بحث سطح پر کوئی بھی بحث و مباحثہ نہیں ہو رہا لیکن بہت جلد ذرائع ابلاغ کے ادارے‘ اشتہاری کمپنیاں‘ برانڈز اور کم لاگت میں معلوماتی قطعات (گرافکس)‘ موسیقی‘ تصاویر‘ ویڈیوز یا تحریریں (ٹیکسٹ) تیار کرنے والی کمپنیاں مصنوعی ذہانت کے استعمال کی وجہ سے ایک دوسرے الجھ سکتی ہیں لہٰذا قومی فیصلہ سازوں کو ابتدأ ہی میں اِس تنازعے (کاپی رائٹس) سے متعلق موجود قواعد و ضوابط پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ قابل ذکر ہے کہ امریکہ اور بہت سے دیگر ممالک میں‘ جو کوئی بھی مصنوعی ذہانت کی مدد سے کوئی فن پارہ تخلیق کرتا ہے تو اُسے فوری طور پر اُس کے مالکانہ حقوق حاصل ہو جاتے ہیں اور امریکہ کے قانون میں انسانی ذہانت یا مصنوعی ذہانت سے تخلیقات کاپی رائٹ رجسٹریشن کی جاتی ہے اور اِسے عوامی ریکارڈ بنا دیا جاتا ہے جس کا مالک اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے عدالت سے بھی رجوع کر سکتا ہے تاہم جس انداز میں مصنوعی ذہانت کا دائرہ پھیل رہا ہے تو اُسے مدنظر رکھتے ہوئے انسانی ذہانت پر مصنوعی ذہانت حاوی ہو سکتی ہے کیونکہ انسانی تاریخ نے جس قدر بھی ترقی کی ہے کمپیوٹر اُس ساری ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے تخلیقات کرتا ہے جس کی وجہ سے نقل کو تلاش کرنا ممکن نہیں رہتا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکہ میں جاری کاپی رائٹ بحث سے متعلق وہاں کی عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ ”کوئی بھی مصنف یا تخلیق کار صرف انسان ہو سکتا ہے مشین نہیں لیکن جب موسیقی کے شعبے کو دیکھا جاتا ہے تو مصنوعی ذہانت موسیقی کی تخلیق بھی کر رہی ہے جس پر ’کاپی رائٹ‘ کا اطلاق کس طرح کیا جائے گا‘ اِس بات پر دنیا کا متفق ہونا ابھی باقی ہے۔ عمومی استدلال یہ ہے کہ چونکہ نئے الگورتھم اوپن ویب پر بڑی مقدار میں مواد ازخود تربیت پاتا ہے جس کا کچھ حصہ کاپی رائٹ ہوتا ہے لہٰذا مصنوعی ذہانت جب ماضی کی تخلیقات سے کچھ بھی استعمال کرتی ہے تو اُسے قانونی طور پر پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے ذرائع اور مہارت کی تفصیلات بھی مہیا کرے۔ انسان کے تخلیقی سفر میں اب تک کا سب سے بڑا اعزاز اور خصوصیت یہی تھی کہ وہ کچھ ایسا تخلیق کر سکتا ہے‘ کچھ ایسا سوچ سکتا ہے جو اِس سے پہلے دنیا میں کسی نے نہ سوچا ہو لیکن مصنوعی ذہانت کے پہلے مرحلے ہی میں الگورتھم نے انسانی ذہانت کو چیلنج کر دیا ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ جب اِس مصنوعی ذہانت کا استعمال چند عالمی طاقتوں کے ساتھ دیگر ممالک بھی کرنے لگیں گے تو دفاع‘ دفاعی صلاحیت اور ہتھیاروں کی شکل و صورت کیا ہوگی اور اِس مصنوعی ذہانت سے محفوظ رہنے کے لئے انسان کو اپنی ذہانت کس قدر مدد فراہم کرے گی۔