ہمارے ارد گرد جو ٹوٹی پھوٹی سڑکیں تھیں ان میں سے بعض بننا شروع ہو گئی ہیں۔بلکہ ان کی تعمیر کی رفتار میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے مگر ہماری سمجھ نہیں آرہا کہ معاملہ کیا ہے۔ شاید گرمی کا موسم ہے اور گرما میں سڑکیں بنا کرتی ہیں۔مگر ہم نے تو پانچ سال ہونے کو آئے ہیں گرمی کے موسم میں کبھی ایسا نظارہ نہیں کیا۔ سوئی گیس والے آئے اور عین بازار کی مصروف ترین سڑک کو کھود کر پائپ ڈال گئے جس کی وجہ سے ان کے ہاتھوں سے پورے آباد ایریا میں سوئی گیس کی بُو اس طرح ہر گھر میں محسوس ہوتی تھی کہ جیسے گھرگھر میں سوئی گیس کا چولھا بغیر آگ کے کھلا رہ گیا ہے۔ہر کوئی ایک دوسرے سے پوچھتا کہ آپ کے گھرمیں بھی گیس کی بُو ہے یا ہمارے ہی گھر میں ہے۔مگر وہ گیس کی فراوانی اب تو محض ایک خیال ہے۔سڑکیں ادھیر کر رکھ دی تھیں۔جیسے محکمہ آثارِ قدیمہ والے کسی خزانے کی تلاش میں ہوں۔مگر جب پائپ ڈالے گئے تو اس کے بعد گیس والوں کا دور دور تک پتا نہ تھا او رنہ ہی تعمیرات کے محکمہ والوں کو کبھی خیال آیا کہ یہ سڑک بنا دیں
۔جن پر سے ہزاروں گاڑیاں روز آتی جاتی ہیں اور اس سڑک پر بیچ سیمنٹ کے جو رخنے ہیں اس سے لڑکھڑا کر کتنے ہی موٹر سائیکل سوار معہ فیملی سڑک پر جیسے بچھ ہی گئے۔مگر اب چہار اطراف سڑکوں کو نیا کیا جا رہا ہے۔ہر حال تعمیر و ترقی ہو خواہ جس کے ہاتھ سے ہو بات بری نہیں بلکہ قابلِ تعریف ہے۔ بعض سڑکیں بہت خوبصورت بنا دی گئی ہیں ایسے کہ کالا کارپٹ بچھا دیا گیا ہے۔تارکول نہیں جیسے ہاکی گراؤنڈ کے لئے آسٹروٹرف بچھا دی گئی ہو۔بہر حال میرے دل میں تو بجائے اس کے کہ خوشی کی لہر دوڑ جائے مجھے یہ نئی سڑکیں دیکھ کر الٹا غم کی فضا دل کے اندر کانٹے چبھوتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔ اس کی بھی تو ایک وجہ ہے ہر کام جو ہو رہا ہے کسی وجہ کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ کوئی روتا ہے اور کوئی ہنستا ہے اور کوئی روتا او رپھر فوراً ہنس دیتا ہے۔پھر کوئی خاموش ہے نہ ہنسے نہ روئے تو بھی کسی وجہ کے تحت ہے۔مجھے تو ان صاف و شفاف سڑکوں کو دیکھ کر یہ بات کھائے جاتی ہے کہ سڑک تو بن گئی ہے اور ٹریفک بھی رواں دواں ہو گئی ہے مگر عنقریب اس سڑک پر یہاں قریب رہنے والے ان خوبصورت او رنرم وملائم سڑکوں پر اپنی پسند اور اپنے پسندیدہ مقام پر سپیڈ بریکر بنانے لگیں گے۔پھر یہ سپیڈ بریکر بھی تو نہیں ہوں گے۔جیسی دیواریں اٹھا دیں گے کہ جس پر سے چار پایہ گاڑی تو گزر ہی جائے گی مگر دو پایہ گاڑیاں گزرتے ہوئے لڑکھڑا جائیں گی۔مگر کیوں نہ قانونی جرم کے کھاتے میں اس قسم کی حرکت کرنے والے کو جرمانہ کیا جائے اور کچھ دنوں کے لئے سلاخوں کے پیچھے منتقل کردیا جائے تاکہ ان کو لگ پتا جائے کہ یہ سرکاری جائیداد کو
کیونکر نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پھر نالیاں بنا کر یونہی چھوڑ دیتے ہیں۔پھر ذرا گہری بنا کر اس نالی میں پلاسٹک کا پائپ دوڑا دیں گے اور نالی کو ایک کھڈے کی صورت میں یونہی چھوڑدیں گے۔اگر ممکن ہوا تو اس کو مزید اونچا کر کے اس کو سپیڈ بریکر کی شکل دے دیں گے۔ ویسے میری سمجھ میں اس معاملے پر کوئی حتمی رائے ترتیب نہیں پا رہی کہ آخر سڑک کون بنا رہا ہے۔ شاید آنے والے انتخابات کے امیدوار پہلے ہی سے شہریوں کے دلو ں میں اپنی جگہ بنانے کے لئے یہ جگہ بنا رہے ہیں یا کوئی اور بات ہے۔ مگرجو بات بھی ہے قابلِ تعریف بات ہے۔کام ہو بس جو بھی کرے ہمارا تو اپنے کام سے کام ہے۔ پھر ان کا بھی اپنے کام سے کام ہونا چاہئے۔بلکہ ہر ایک کا اپنے کام سے کام ہونا چاہئے۔دوسروں کے کام میں دخل دینے سے کام سنورتے نہیں ہیں الٹا خراب ہو جاتے ہیں۔سو اچھی بات ہے کہ شہر میں تعمیراتی عوامی منصوبوں کی آبیاری کا بندوبست کیا جائے۔اس میں بہتوں کا بھلا ہے۔