مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد کی نشری تقاریر کا خاصہ ان کا دلچسپ انداز بیان اور معمول کے واقعات کو انوکھے انداز میں اس طرح سننے اور پڑھنے والوں کے سامنے پیش کرنا ہے کہ ان میں سیکھنے کے کئی پہلو سامنے آتے۔ہمارے سامنے جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے ان سے سیکھنا اور اس میں موجود سبق کا کھوج نکالنا ہر کسی کی انفرادی صلاحیت پر منحصر ہے۔ اشفاق احمدکی ایک نشری تقریر سے زیر نظر انتخاب سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ کس طرح عام واقعات میں پوشیدہ درس کو سامنے لاتے۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ ہمارے گھر میں ایک راستہ جو چھوٹے دروازے سے ڈرائنگ روم میں کھلتا ہے اور پھر اس سے ہم اپنے گھر کے صحن میں داخل ہوتے ہیں‘بارشوں کی وجہ سے وہ چھوٹا دروازہ کھول دیا گیا‘تاکہ آنے جانے میں آسانی رہے آسانی تو ہوئی‘لیکن اس میں ایک پیچیدگی پیدا ہوگئی وہ یہ کہ باہر سے جو جوتے آتے تھے‘ وہ
کیچڑے سے لتھڑے ہوئے ہوتے تھے اور باوجود کوشش کے اور انہیں صاف کرنے کے‘کیچڑ تو اندر آہی جاتا تھااور اس سے سارا قالین خراب ہوجاتا تھا‘میں چونکہ اب تیزی سے بوڑھا ہورہا ہوں اور بوڑھے آدمی میں کنٹرول کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے تو میں چیختا چلاتا تھا اور ہر آنیوالے سے کہتا کہ جوتا اُتار کر آؤ اور اسے پہننے کے بجائے ہاتھ میں پکڑ کر آؤ اس سے میرے پوتے اور پوتیا ں بہت حیران ہوتے تھے کہ اس جوتے کا فائدہ کیا جو گھر کے دروازے پر پہنچ کر اتارا جائے اور ہاتھ میں پکڑ کر گھر میں داخل ہوا جائے وہ بیچارے کوئی جواز تو پیش نہیں کرتے تھے لیکن جوتے اتارتے بھی نہیں تھے جس سے میری طبیعت میں تلخی اور سختی بڑھتی گئی اور میں سوچتا تھا کہ یہ مسئلہ صرف اسی طرح سے ہی حل ہوسکتا جس طرح میں سوچتا ہوں میری بہو نے کوئی اعتراض تو مجھ پر نہیں کیا اور نہ ہی اس نے مجھے کوئی جواب دیا وہ شام کو بازار گئی اور اس نے دو میٹ خریدے ایک تاروں کا بنا ہوا اور دوسرا موٹا بالوں والا‘اب جب تاروں کے میٹ سے پاؤں رگڑے جاتے تو وہ ’رندے‘ کی طرح صاف کردیتا اور پھر موٹے بالوں کا موٹا دبیز میٹ مزید صفائی کردیتا تھا یہ بعد میں رکھا گیا تھا
جب میں نے یہ عمل دیکھا اور میں اس پر غور کرتا رہا‘ تو مجھے کافی شرمندگی ہوئی کہ میں جو اپنی دانش کے زور پر اپنے علم اور عمر کے تجربے پر بات کہہ رہا تھا‘ وہ اتنی ٹھیک نہیں تھی اور اس لڑکی (بہو) نے اپنا آپ اپلائی کرکے اس مسئلے کا حل نکال دیا اور ہمارے درمیان کوئی جھگڑا بھی نہیں ہوا مجھے خیال آیا کہ انسان اپنے آپ میں تبدیلی پیدا کرنے کیلئے دوسروں پر تنقید زیادہ کرتا ہے اور خودمیں تبدیلی نہیں کرتا۔“ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ کسی مسئلے کے تمام ممکنہ حل سامنے لانے اور ان میں سے بہترین کا انتخاب کرنا ہے اور اس کا بہترین طریقہ مشورہ ہے، جس کسی مسئلے کا حل نکالنا مشکل ہو تو یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ حل نکالنا ہر کسی کیلئے مشکل ہوگا بلکہ بسا اوقات سامنے موجود بندہ ایسا حل بتا دیتا ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ اتنا آسان حل مجھے کیوں نہیں سوجھا۔