گزشتہ چند ہفتوں کے دوران چین نے سفارتی محاذ پرجوچابک دستی دکھائی ہے اس سے چین عالمی سطح پرایک کامیاب سفارتکار کے طور پر سامنے آیاہے‘اس سفارتکاری کا آغاز یوکرین جنگ کے پس منظر میں گزشتہ مہینے صدر شی جن پنگ کے روس کے تین روزہ دورے سے ہوا۔ ابھی دنیا اس ملاقات کی تفصیلات جاننے کے انتظار میں تھی کہ ایسے میں بیجنگ سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان نوسال سے تعطل کے شکار دوطرفہ سفارتی تعلقات کی بحالی کی خوشگوار اطلاعات موصول ہوئیں جس سے جنوب مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں تو خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے لیکن امریکہ اور اسرائیل پر یہ خبر بجلی بن کر گری ہے۔امریکہ اس خبر کے بعد سکتے کی حالت سے نکلنے کی تگ ودوکرہی رہاتھا کہ ایسے میں فرانس کے صدر میکرون نے بیجنگ میں اپنے چینی ہم منصب سے انتہائی خوشگوار موڈ میں ملاقات نیز تائیوان پر امریکی لائن سے ہٹ کر بیان دے کر یورپ سمیت پورے جنوب مشرقی ایشیا میں ایک نیا بھونچال برپاکردیاہے،جب کہ اب برکس تنظیم کے ایک اہم رکن اور جنوبی امریکہ کی سب سے بڑی معیشت برازیل کے صدر لولا ڈی سلواکی چین میں فقیدالمثال استقبال اور میزبانی سے عالمی سطح پر چین کے قد کاٹھ میں مذید اضافہ ہوگیاہے۔اسی طرح چین کی جانب سے یوکرین کے ایشوپر ایک اعلیٰ سطحی ایلچی کی یورپ یاترااور یوکرین جنگ کے خاتمے کیلئے ایک12 نکاتی حل کے سامنے آنے کوبھی چین کی بین الاقوامی سطح پرایک بڑی سفارتی کامیابی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔چین کی کامیاب سفارت کاری کی حالیہ ہلچل کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بیجنگ خود کو تیزی سے محصور محسوس کر رہا ہے۔اس ضمن میں امریکی قیادت میں بحر الکاہل اور بحر ہندکے اطراف میں بننے والے اوکس اور کواڈ جیسے مضبوط دفاعی سٹریٹیجک اتحادوں کے ذریعے چین کی جدید ٹیکنالوجی تک رسائی کو محدود کرنے کے لئے اقدامات کیے گئے ہیں۔ مارچ میں چینی صدرمسٹر ژی کی جانب سے امریکی قیادت میں مغربی ممالک پر چین کو قابو میں رکھنے، گھیرے میں لینے اور دبانے کا الزام ایسے وقت میں لگایاتھا جب امریکہ کی جانب سے متذکرہ دونوں اتحادوں کے حوالے سے خطے میں کافی گرماگرمی دیکھنے میں آئی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چین کی خارجہ حکمت عملی کا ایک کلیدی نکتہ کثیر قطبی دنیا ہے، جس میں طاقت کے متعدد مراکز ہیں۔ بیجنگ اس اپرووچ کو امریکی بالادستی کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔اس حوالے سے بیجنگ کا استدلال ہے کہ طاقت کی زیادہ متوازن تقسیم دنیا کو محفوظ تر بنانے میں ممدومعاون ثابت ہوگی۔واضح رہے کہ چین اکثر عراق اور افغانستان میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کی ناکامیوں کو اُجاگر کرتا رہاہے جبکہ وہ خود کو ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کرتا ہے جس کے ہاتھ پر کسی بے گناہ ملک کاخون نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود کودنیا کی قیادت کے لئے ایک بہتر آپشن سمجھتاہے۔ دراصل یورپ جیسے روایتی امریکی اتحادیوں میں چین کے حوالے سے مثبت سوچ کے پروان چڑھنے کی ایک جھلک فرانسیسی صدر میکرون کے حالیہ دورہ چین میں تائیوان کے ایشو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ کہناہے کہ یہ یورپ کے مفاد میں نہیں ہو گا کہ وہ ایسے بحرانوں میں پھنس جائے جو ہمارا نہیں ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے تبصروں کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی اتحادی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں آنکھیں بند کرکے اس کے پیچھے چلنا چاہئے۔ بعض مبصرین کاخیال ہے کہ یورپ امریکہ اور چین کے تعلقات کا مرکزی میدان جنگ بنتا جا رہا ہے جہاں جو بھی چین کی پشت پناہی کرے گاوہ سب سے اوپر نظر آئے گالہٰذا اس تناظر میں فی الحال میکرون یورپ کے لیڈروں میں سب سے آگے نظر آتے ہیں جب کہ اس حوالے سے سپین اور اٹلی بھی پیچھے رہنے کے لئے تیار نہیں ہیں ان دومغربی یورپی ممالک کی جانب سے بھی چین کی حمایت میں آوازیں اُٹھ چکی ہیں۔ دریں اثناء فرانسیسی صدر کے حالیہ دورہ چین کے اگلے روز چین کی جانب سے آبنائے تائیوان میں تازہ جنگی مشقوں سے خطے پر کسی ممکنہ جنگ کے بادلوں کومنڈلاتے ہوئے بھی باآسانی دیکھاجاسکتاہے ان مشقوں میں جنگی طیاروں اور بحری جہازوں کو جزیرے پر حملوں کی نقل کرتے ہوئے دیکھا گیاہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات چین کے امن ساز ہونے کے دعوے کو کم کرتے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب چین کی ان مسلسل مشقوں کو فوجی جارحیت کے طور پربھی دیکھاجارہاہے حا لانکہ بیجنگ نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا ہے کہ یہ دفاعی اقدام ہیں اور اس کے لئے یہ ایک گھریلو مسئلہ ہے۔زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ چین جلدی میں تائیوان پر حملہ کرنے کابظاہر کوئی ارادہ نہیں رکھتا البتہ تشویش کی بات یہ ہے کہ فوجی کاروائی میں اضافہ امریکہ کے ساتھ ایک خطرناک غلط فہمی اور جنگ کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ اگر جزیرے پر حملہ ہوتا ہے تو واشنگٹن تائیوان کے دفاع سے پیچھے ہٹنے کارسک نہیں لے سکے گالہٰذا ایسے میں جب چین سعودی ایران تنازعے اور یوکرین بحران کے خاتمے کی کوششوں کے تناظر میں دنیابھرمیں اپنی کامیاب سفارتکاری کے جھنڈے گاڑھ رہاہے تو اسے جلد ہی اس بات کاانتخاب کرنا ہوگاکہ وہ عالمی سیاست میں امن کی فاختہ یاپھر تائیوان پر حملے کی صورت میں ایک جنگجو کے طور پر پیش کرتاہے یہ وہ ون ملین ڈالر سوال ہے جس کے جوا ب پرچین کے مستقبل کادارومدار ہے۔