پروفیسر سیٹھی اسماعیل

 (روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
پروفیسر سیٹھی اسماعیل بھی اللہ کو پیارے ہوگئے میرااور ان کاتعلق بتیس سال پرانا ہے البتہ جانتا ان کو اس وقت سے تھا جب میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور وہ کالج میں پروفیسر تھے میں ان کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا تھا سرخ و سفید بلند و بالا سمارٹ مدبر ملنسار و مربی‘ پہلی نظر میں دل میں کھپ جانے والے آدمی تھے مگر مارے رعب حسن و جمال اور دبدبے کے پاس جانے اور ٹھہرانے کا یارانہ تھا سوٹ بوٹ میں ملبوس ایک خاص شان بے نیازی سے شہر کے بازاروں میں چلتے پھرتے نظر آتے تو میں اس طرح مڑ مڑ کر دیکھتا جس طرح فلمی اداکاروں کو دیکھتا جاتا ہے پروفیسر ایسے ہوتے ہیں ایسے  ہی ہونے چاہئیں پھر میں بھی اس محکمے میں بھرتی ہو گیا جس کے وہ افسر تھے میرے انٹرویو میں وہ بیٹھے تھے بڑے زور دار سوال کئے تھے  میں ان سے اور خوفزدہ ہوگیا خیر دیانت و شرافت کا زمانہ تھا میرٹ پر نوکری مل گئی میں مردان سے ہوتا ہوا صوابی پہنچا، ایک کیس میں سیٹھی اسماعیل ڈپٹی ڈائریکٹر انکوائری افسر مقرر ہوئے بیانات قلم بند ہوئے سیٹھی صاحب نے کمال جرات سے کام لیتے ہوئے مجھے بری کردیا‘ پروفیسر سیٹھی ترقیوں پر ترقی کرتے ڈائریکٹر تعلیم‘سیکرٹری تعلیم‘ وائس چانسلر پشاور گومل یونیورسٹی اورچیئرمین یونیورسٹی گرانٹس‘ کمیشن کے عہدوں پر فائز رہے جہاں بھی رہے اسی طرح منکسرالمزاج‘ دیانت دار اور خوش خلق و ملنسار رہے جن دنوں ڈائریکٹر مقرر ہوئے اس وقت ان کے پاس اپنی موٹر تھی نہ سرکاری موٹر ملی تھی محلہ سیٹھیاں میں اپنی حویلی سے نکلتے اور ڈائریکٹوریٹ کی طرف پیدل روانہ ہو جاتے میں بازار کلاں میں ان کا انتظار کرتا ہم دونوں ساتھ ساتھ چلتے ان دنوں میرا کیس ان کے دفتر میں چل رہا تھا دفتر پہنچ کر وہ اپنے کاموں میں الجھ جاتے۔ جب سیکرٹری تعلیم تھے تو ایک دن پاڑہ چنار کے دورے پر آئے میں اس وقت وہیں تھا ہمارے دوست پروفیسر دلاور حسین بنگش مرحوم نے ان کو اپنے گاؤں شلوزان چائے پر مدعوکیا ان کے یہاں پراٹھے زبردست قسم کے بنتے ہیں شلوزان کے ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشموں کے کنارے بیٹھ کر چائے اور پراٹھے کھائے ڈھیروں باتیں کیں یہ احساس ہی نہیں تھا کہ وہ سیکرٹری تعلیم ہیں گومل یونیورسٹی میں وائس چانسلر تھے کہ ہم دونوں کا ایک کانفرنس کے سلسلے میں کراچی جانا ہوا موسم خراب تھا پشاور سے جہاز روانہ نہ ہو سکا سیٹھی صاحب اور میں انکی موٹر میں بیٹھے اورراولپنڈی چلے راستے پر پھل‘ فروٹ مٹھائیاں خریدتے رہے حسن ابدال میں رکے‘ زبردست کھانا کھلایا ڈرائیور کو زبردستی ساتھ بٹھایا کراچی میں ساتھ رہے بہت بڑے عالم و سکالر مگر رویہ بڑے انسانوں اور معصوم بچوں کا سا تھا کمرے کے سامنے کھڑے ہیں اور کہتے ہیں چلو اکٹھا کھا آئیں سڑک پر ٹھل آئیں کہیں سے قہوہ پیتے ہیں میں حیران‘  مگر ان کی ادائیں دلبرانہ و محبوبانہ‘ پیکر اخلاق و اخلاق‘ کانفرنس کی بحثوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ماہر اقتصادیات تھے اور اپنے علم سے گہرا شغف رکھتے تھے مگر ان کا اصل عشق مولانا روم سے تھا زندگی کے آخری دنوں میں مولانا روم پر ایک مفصل کتاب بھی لکھی تھی میں نے بارہا ان سے اس کتاب کی رونمائی کا تذکرہ کیا ٹال گئے‘ ان کے ساتھ شام منانے کیلئے استدعا کی مسکرا پڑے وہ ان چیزوں سے کلی طورپر بے نیاز تھے جب یہ کتاب نہیں چھپی تھی کہ میں چھپوانے پر اصرار کرتا تھا ایک دن مجھے کہا تم آؤ اور سارے مسودات لے جاؤ اور ترتیب دے کر چھپوا ڈالو‘ سچی بات ہے مجھ سے کوتاہی ہوئی بعد میں انہوں نے آہستہ آہستہ سارا کام خود مکمل کیا۔ سیٹھی صاحب کافی عرصہ ٹیلی ویژن پر مولانا روم پر لیکچر بھی دیتے رہے تھے۔