پاکستان میں خواتین کے لئے گھر سے باہر اپنی صلاحیتوں کا منوانا صرف مشکل ہی نہیں بلکہ انتہائی مشکل ہے اور ایسے ماحول میں جب کسی خاتون کی کامیابی کے بارے خبر آتی ہے تو اُس کی کہانی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں توجہ سے پڑھی‘ سنی اور دیکھی جاتی ہے۔ خواتین مشکل حالات اور پابندیاں (رکاوٹیں) عبور کر کے ثابت کر رہی ہیں کہ وہ پاکستان کی نیک نامی اور اِس کی ساکھ میں اضافے کی کوششوں کا حصہ اور شانہ بشانہ شریک ہیں۔ رواں ہفتے نیپال میں آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ کی بلند ’اناپورنا چوٹی‘ سر کرنے والی پاکستان کی پہلی خاتون نائلہ کیانی نے اِس سے قبل ’کے ٹو‘ سمیت کئی بلند چوٹیاں سر کی ہیں۔ اب وہ ماؤنٹ ایورسٹ کو بھی سر کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں‘ جو دنیا کی بلند ترین چوٹی ہے۔
پاکستان میں کوہ پیمائی میں حکومتی سرپرستی حاصل نہیں۔ یہ ایک مشکل ہی نہیں بلکہ جان لیوا کھیل ہے جس میں طبع آزمائی ہر پاکستانی کے بس کی بات بھی نہیں بالخصوص خواتین کے لئے یہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ نائلہ کے ساتھ شہروز کاشف بھی تھے جو اناپورنا کو سر کرنے والے ملک کے سب سے کم عمر کوہ پیما بن گئے ہیں جسے روایتی طور پر کوہ پیمائی میں ایک بڑے چیلنج اور پہاڑ کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اِس پر چڑھنا انتہائی مشکل ہے۔ نائلہ نے دیگر خواتین کے لئے ایک مثال قائم کی ہے۔ دو بچوں کی ماں ہونے کے ناطے انہوں نے یہ بھی دکھایا ہے کہ ایک عورت کیا کچھ کر سکتی ہے اور ایک خاندان کی پرورش کے ساتھ وہ ملک کے لئے نام بھی پیدا کر سکتی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ خواتین بھی آخرکار ایڈونچر کی خواہش مند ہوتی ہیں اور ان میں پہاڑوں کو سر کرنے خواہش ہوتی ہے لیکن دہائیوں سے کوہ پیمائی کرنے کے بعد ہی کوئی اِس کمال تک پہنچ سکتا ہے کہ وہ کوہ پیمائی میں اپنا کیریئر جاری رکھ سکے۔ نائلہ گزشتہ سال دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ’کے ٹو‘ کی مہم میں ثمینہ بیگ کے ساتھ تھیں۔ ثمینہ اور نائلہ جیسے کوہ پیماؤں نے یقینی طور پر پاکستان میں کوہ پیمائی میں بڑھتی ہوئی دلچسپی میں اضافہ کیا ہے۔ دنیا کی چودہ بلند چوٹیوں میں سے پانچ پاکستان میں ہیں جو آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلند ہیں اور ان میں دو کو سب سے زیادہ چیلنجنگ میں شمار کیا جاتا ہے۔ ’کے ٹو‘ کی چوٹی کو اس کے بدنام موسم کی وجہ سے زیادہ مشہور ایورسٹ سے کہیں زیادہ مشکل سمجھا جاتا ہے۔ 1954ء سے اب تک اسے صرف 425 افراد نے سر (فتح) کیا ہے جن میں بیس خواتین بھی شامل ہیں جبکہ اس کے برعکس چھ ہزار سے زیادہ کوہ پیما ایورسٹ کو سر کر چکے ہیں۔ خواتین کی اِس طرح کی سرگرمیوں میں شرکت کی حوصلہ افزائی اور فروغ کے لئے نجی اداروں کی مہمات کی سرپرستی کرنی چاہئے تاکہ مزید ایسی خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ عظیم کامیابیاں حاصل کر سکیں یقینا خواتین کسی بھی طرح مردوں سے پیچھے نہیں۔ نائلہ اور ثمینہ جیسے کوہ پیماؤں نے ثابت کیا ہے کہ اگر توجہ دی جائے تو پاکستان میں اہلیت و صلاحیت کی کمی نہیں تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کوہ پیمائی اور کوہ پیماؤں کو زیادہ سے زیادہ توجہ دے‘ سہولیات و تربیت کا انتظام کیا جائے اور صرف اِسی صورت خواتین کو اپنی حقیقی صلاحیتیں اُجاگر کرنے کا موقع ملے گا۔