سوشل میڈیا اور حدود و قیود کی پابندی 

وطن عزیز کے دانشور یہ کہہ کہہ کر تھک ہار گئے ہیں کہ سوشل میڈیا پر سنسر شپ کا سختی سے اطلاق ہو کہ اس پر دکھائے جانے والے اکثر پروگرام ملک کے کچے اذہان رکھنے والے بچوں پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں اس حوالے سے موثر اقدامات کی ضرورت ہے،ہم سے تو پھر اس ضمن میں امریکہ ہی بہتر نکلا کہ وہ جلد ایسا قانون متعارف کرانے جا رہا ہے کہ جس کے تحت 18 سال سے کم عمر بچے والدین کی اجازت کے بغیر سوشل میڈیا ایپس استعمال نہیں کر سکیں گے کیونکہ کئی برس سے امریکی قانون ساز سماجی پلیٹ فارمز کے حوالے سے خدشات دور کرنے کیلے نئی پالیسیوں کا مطالبہ کر رہے تھے جس کی مدد سے نوجوان صارفین کو آن لائن ہراسانی جیسے واقعات سے بچایا جا سکے۔لہٰذا امریکی قانون سازوں نے سوشل میڈیا سے متعلق ضابطے اور قوانین بنانے پر غور شروع کر دیا ہے یہ اقدام نو عمر بچوں کے تحفظ کے لئے اٹھایا گیا ہے جس سے کئی والدین برسوں تک سوشل میڈیا کے بچوں پر منفی اثرات کے حوالے سے فکر مند تھے۔وہاں کے دانشوروں نے جب یہ محسوس کیا کہ اس سے نو عمر بچوں اور بچیوں کے کچے اذہان  پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں تو انہوں نے اس ضمن میں مندرجہ بالا قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا دوسری طرف ہم ہیں کہ اس اہم مسئلہ کی طرف  کسی کا دھیان ہی نہیں جاتا۔ حالانکہ ہمارے ہاں یہ مسئلہ زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے،سوشل میڈیا پر کنٹرول اوراس کے لئے قواعد و ضوابط کی اس لئے بھی اشدضرورت ہے کہ اس سے سماج دشمن عناصر اور معاشرے میں بے چینی پھیلانے کی کوشش کرنے والے فائدہ اٹھاتے ہیں۔تا دم تحریر وطن عزیز میں لگژری گاڑیوں کی امپورٹ جاری ہے جن پر زر مبادلہ کی ایک کثیر رقم خرچ ہو رہی ہے۔  ایک عام آدمی کی سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ آخر ہمارے ارباب اقتدار ملک میں چھوٹی گاڑیوں کا چلن عام کیوں نہیں کرتے۔ مادہ پرستی کے اس دور میں آج بھی آپ کو مفتی عبدالشکور ایم این اے جیسے لوگ ملتے ہیں گو وہ آپ کو خال خال نظر آ تے ہیں ان کا اگلے روز اسلام آباد میں  ٹریفک کے ایک حادثے میں انتقال ہوا ہے، ان کی مالی دیانتداری مسلم تھی، پچھلے برس حج کے دوران بطور وزیر مذہبی امور انہوں نے جو انتظامات کئے تھے وہ مثالی تھے اور ہمارے تمام حجاج کرام ان سے کافی مطمئن تھے، وہ بڑے قناعت پسند تھے اور اپنے گاؤں میں اپنی مسجد کے پچھواڑے ایک ٹوٹے پھوٹے کچے مکان میں بڑی مطمئن زندگی گزار رہے تھے۔  وزیراعظم نے قومی اسمبلی کے فلور پر اگلے روز اپنی تقریر میں بالکل درست فرمایا ہے کہ وہ جے یو آئی کے ماتھے کا جھومر تھے،غالبا ً اس سے بہتر خراج عقیدت ان کو پیش نہیں کیا جا سکتا۔