پروفیسر رشید باچہ

(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
رات نو بجے کا وقت تھا میں اپنی قلمی خاکوں کی ایک کتاب کھولے پروفیسر رشید باچہ کا خاکہ پڑھ رہا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بڑے زور سے بجی میرا دل دہل اٹھا دوسری طرف دل دہلانے والا میرا ایک دوست پروفیسر نثار خان تھا اس کی باتیں بھی دل دہلا دینے والی ہوتی ہیں کہا کچھ خبر ہے میں نے کہا خیر باشد‘ کہا پروفیسر رشید باچہ فوت ہوگئے ہیں۔ آج سہ پہر اسے دفن بھی کر آئے ہیں میرے ہاتھ سے کتاب گر گئی کیوں کیسے کب کہنے کا حوصلہ بھی سلب ہوگیا بس اتنا ہی کہہ سکا نثار خان یہ تم کیا کہہ رہے ہو اس نے کہا سچ کہہ رہا ہوں وہ سفید ریش سفید پوش شریف شائستہ اور ذہین انسان مر گیا اکتیس سالہ تعلق کا ایک باب بند ہوگیا‘ اکتیس برس پہلے کی بات ہے میں پہلی پوسٹنگ پر مردان کالج کے سٹاف روم میں داخل ہوا تو ایک سوٹڈ بوٹڈ خوبصورت آدمی نے بڑھ کر میرا استقبال کیا سرخ و دسفید بانکا سجیلا فزکس کا یہ پروفیسر لیکچررز ایسوسی ایشن کا صدر رشید باچہ تھا وہ سب لوگوں کی توجہ کا مرکز تھا ہنس رہا تھا،ہنسا رہا تھا طنزومزاح کے چٹکلے چھوڑ رہا تھا رشید باچہ پھر پرنسپل بنا‘ ڈائریکٹر بنا‘ سیکرٹری تعلیم کے عہدے پر پہنچا،آخر پبلک سروس کمیشن کے سینئر ممبر کے عہدے سے ریٹائر ہوا طورو مردان کا باسی تھا گو پشاور کا شہری بن گیا تھا آکسفورڈ میں پڑھا تھا ذوالفقار علی بھٹو کا کلاس فیلو بنا تھا،وہ بہت کچھ بن سکتا تھا مگر صرف پروفیسر بنا اپنے شوق وذوق سے بنا، لڑائیاں لڑیں معرکے برپا کئے بھرپور زندگی گزار دی اب خاموشی سے اپنی زمین میں آسودہ خاک ہوگیا ہے، زندگی کے آخری تین چار سال اس نے بڑی خاموشی اور راز داری سے گزارے، ملنا ملانا بہت کم کر دیا تھا اپنا ایک مکان قرضے لے لے کر حیات آبادمیں بنایا تھا،چونکہ زندگی اور ملازمت دیانت داری سے گزاری تھی اس لئے سیکرٹری تعلیم بننے کے باوجود قرض دار رہا،اس قرض داری کی وجہ سے اپنے مکان میں رہنا نصیب نہیں ہوا۔ مکان زیادہ کرائے پر چڑھا کر خود ایک مختصر سے مکان میں رہائش پذیر تھا میں اور نثار خان جب بھی ملنے جاتے تو کھل اٹھتا، خندہ پیشانی سے ملتا گھنٹوں باتیں کرتا‘ علم و دانش کی باتیں ہوتیں میں کہتا باچہ صاحب کچھ لکھیں اپنی پادداشتیں لکھیں مصروف ہو جائیں گے، وہ دھیمے انداز میں مسکرا اٹھتا کہتا لکھناہر کسی کے  بس کی بات نہیں تم آؤ میں تمہیں لکھواتا جاؤنگا یہ سن کر ہنس پڑتا‘ مرنے سے چند دن پہلے ان کا فون آیا بڑی معذرت کی تھی دراصل دو تین مرتبہ ان سے ملنے ان کے گھر گیا تھا،اتفاق سے ان تینوں موقع پر وہ اپنے بیٹے کے پاس اسلام آباد گئے ہوئے تھے،فون پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا پہلی فرصت میں ملنے آؤ بہت سی باتیں کرنی ہیں یونیورسٹی کی تعطیلات اور شدید گرمی نے میرے قدم روک لئے تھے میں اپنی دو کتابوں پر ان کا نام لکھ کر اچھے موسم کا انتظار کر ہی رہا تھا کہ وہ ہم سے روٹھ کر چلا گیا جس نے آکر جو کچھ کہہ دیا مان لیا کبھی اس شخص کو بلا کر صفائی کا موقع نہ دیا، بس سنی سنائی باتوں پر فوراً یقین کر لیتا تھا یہی بات میں اس کے قلمی خاکے میں لکھی تھی تو تب بھی ناراض ہوگیا تھا،رشید باچہ بہت زود رنج آدمی تھا اس کی رنجیدگی کی چغلی اس کی گلابی رنگت کھا لیتی تھی،حریفانہ بات سن کر اس کی کان کی لوئیں ایک دم سرخ ہو جاتی تھیں اور چہرے کارنگ متغیر ہو جاتا تھا،جب وہ کسی کا حریف بن جاتا تو پھر اسے گھر تک پہنچانے کا پورا عزم کر لیتا،مارشل لاء کا زمانہ تھا باچہ صاحب میری مخالفت میں اس حدتک چلا گیا کہ میرا کیس برطرفی کیلئے مارشل لاء حکام کو بھیج دیا، مارنے والے سے بچانے والا چونکہ زیادہ مضبوط تھا اس لئے بچ گیا اس کے بعد جب رشید باچہ مجھ سے راضی ہوا تو ایسا راضی ہوا کہ اسی مارشل لاء کے دور میں میری برطرفی کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہوگیا، باچہ صاحب اگر نہ ہوتا تو میں کبھی کا برطرف ہو چکا ہوتا اس کے بعد جب وہ سیکرٹری تعلیم بنا تو مجھے کالج سے بلا کر سیکشن آفیسر بنایا جب وہ وہاں سے ٹرانسفر ہوکر پبلک سروس کمیشن میں چلا گیا تو میونسپل کارپوریشن کے بارے میں ایک فیچرلکھنے پر پشاور کے اس وقت کے میئر مجھے برطرف کروانے نئے سیکرٹری تعلیم کے پاس پہنچ گئے نتیجہ یہ نکلا کہ میں چارج شیٹ ہوگیا اس وقت رشید باچہ نے کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے یہ سرٹیفیکیٹ دے دیا کہ یہ مضامین اس نے میری اجازت سے لکھے ہیں اگرچہ اس سرٹیفیکیٹ کے پیش کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی مگر اس سے اسکے کردار کی مضبوطی کا پتہ چلتا ہے کہ وہ دوستوں کا دوست تھا۔ رشید باچہ کے گھر کے کمرے میں ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر آویزاں رہتی تھی اس کے حریفوں کی لگائی بجھائی پر فضل حق اکثراسے یہ کہہ کر چھیڑا کرتا کہ باچہ صاحب ہر روز بھٹو کی تصویر کو سلام کرتا ہے رشید باچہ مارشل لاء کے زمانے  یہ کہنے سے نہ جھجھکتا کہ ہاں ذوالفقار علی بھٹو میرا دوست تھا دوست رہے گا،بھٹو جب وزیراعظم تھا تو مردان آیا باچہ صاحب سے ملاقات کی پوچھا کچھ چاہئے باچہ صاحب نے کہاکہ ہاں چاہئے مردان کالج کیلئے نوابوں کی ملکیتی اضافی زمین‘ باچہ صاحب نے یہی کام بھٹو صاحب سے لیا‘ باچہ صاحب انتہائی غیرمتعصب انسان تھا بہت اچھی اردو بولتا تھا مجھ سے ہمیشہ اردو میں بات کرتا میں کہتا باچہ صاحب میری پشتو اتنی خراب نہیں ہے وہ ہنس کے کہتا میں جانتا ہوں مگر میں اردو بولنا پسند کرتا ہوں انگریزی تو اس کی تھی ہی آکسفورڈد کی انگریزی۔ وہ سائنس کا آدمی تھامگر بطور سیکرٹری تعلیم ایسی ایسی خوبصورت سمریاں اور رپورٹیں تحریر کرتا کہ ہم جیسے انگریزی کے طالب علم عش عش کر اٹھتے وہ گلوبل وژن کا آدمی تھا اس کے منہ سے کبھی پاکستان‘ قائداعظم یا اردو زبان کے خلاف بات نہیں نکلی وہ کسی بھی زبان علاقے کلچر لباس سے نفرت نہیں کرتا تھا نفرت اسے تھی تو تنگ نظر متعصب علاقائیت و لسانیت پرست سوچوں سے‘ اس کی میری اکثر بحثیں اس موضوع پر ہوتیں وہ یہی کہتا دنیا کس طرح جارہی ہے اور ہمارے چند کنوئیں کے مینڈک کیا سوچ رہے ہیں۔