چار دن گرمی کے تھے۔جب جسم پر سورج کی سنہری کرنیں سوئیاں چھبونے لگی تھیں۔پنکھے نکال لئے گئے تھے۔ چھت کے پنکھوں پر سے اخبار ہٹاکر ان کو چالو کر دیا گیا۔ مگر موسم نے چا رہی دن پہلے پھر انگڑائی لی۔ننھے ننھے قطرے پھوار کے ریزے برسنے لگے۔ اس دن تو ایسی طوفانی ہوا چلی کہ سب کچھ ادھیڑ کر رکھ دیا ساتھ میں بارش اور ساتھ میں دھوپ سایہ کئے رہی۔جو خواتین سودا سلف لینے بازاروں میں کھڑی تھیں وہ سب بنا کچھ خریدے جلدی میں گھروں کو واپس آئیں۔ کیونکہ ہوابہت تیز تھی۔دکانوں کے چھپرگرانے کو تیار تیز طرار تھی۔دکانداروں نے افطاری سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل یہ غنیمت سمجھا کہ دکانوں کے شٹر ڈاؤن کر کے بر وقت گھروں کو لوٹ چلیں۔ کیونکہ اس طوفانی ہواؤں کے تیور درست نہ تھے۔کہیں ایسا نہ ہو جھڑ ی لگ جائے اور پھر گھر بھی پہنچنا ممکن نہ ہو۔اچانک سڑک پر گول چوک کے پاس ایک رش بن گیا۔ہر آدمی جلد ہی گھر کو لوٹ جانا چاہتا تھا۔چار دنوں سے عوامی سن گن ہے کہ یار آج موسم اچھا ہے۔ کبھی بارش ہو جاتی ہے اور کبھی کمزور سی دھوپ نمودار ہو جاتی ہے۔شکر ہے کہ روزے اچھے گزر گئے پچھلے دنوں میں افطاری کے وقت پیاس نے کچھ دنوں کے لئے ضرور ستایا مگر موسم کی تپش نے آخر پسپائی اختیار کی اور رُت پھر سے یخ بستہ ہونے لگی۔ہوا کی تیزی میں درخت جھولنے لگے۔بازاروں میں اپنی خواتین کو لائے ہوئے مرد حضرات ایک طرف کھڑے انتظار کے عالم میں آنکھوں اور چہرے پر پاؤ بھر دھول لے کر گھرو ں کو لوٹے۔درختوں نے شرار کی آوازیں جو نکالیں تو دل کو ڈر بھی لگا کہ اب جانے کیا ہوا۔ پھر خوشی بھی ہوئی گرما کی دھونس بھی بیکا رگئی۔بہار کے اس موسم میں نہر کے کنارے دور تک جانے والی اس پٹی پر دو رویہ سبزہ بغیر کسی کسان کی کوشش کے اتنا اُگ کر سر ابھارنے لگا کہ بچوں نے اپنی درانتیاں لے کر اپنی بکریوں کے لئے خوب گھاس کاٹی اور لوٹ کرگھروں کو لے گئے۔نہر کا پانی ایک خوبصورت چال کی طرح جو سانپ کی ہے بل کھاتے ہوئے جاتا رہا۔اور اس کناروں پر گھنے درخت پانی پر اتنا جھکے ہوئے تھے کہ لگتا نہر کے پانی کو چوم چوم لینا چاہتے ہیں۔ برفیلی رُت نے ایک بار شہریوں کو دوبارہ سکون کا سانس لینا نصیب کیا۔ کمبل جو لاتوں سے پھینک کر ایک طرف کردیئے تھے وہ بستر پر پھر سے اوڑھے جانے لگے ہیں۔ مگر مچھروں کی یلغار نے جو ناک میں دم کر رکھا ہے۔جن کے گھر سبزہ او ردرختوں کے قریب ہیں جہاں قریب کھیت ہیں وہاں تو مچھرو ں کے ہاتھوں جینا دوبھر ہو چکا ہے۔مچھروں کو مارا جائے کے نیند اختیار کی جائے۔ مچھر بتی بھی تو اب مہنگی ہے۔ایک جلیبی پورے گھر میں تو کام نہیں کرتی۔بس ایک ہی کمرے کو مچھروں کی بُو سے بھگائے گی۔ہر علاقے کے اپنے فوائد ہیں جو دوسرے علاقے میں نہیں ہیں۔اب تو کچھ دنوں سے آسمان ہر وقت بھرا ہوا ہے۔یوں کہ ابھی برسے اور ابھی برسے۔پھر چھلک گیا تو سب جل تھل ہو جائے گا۔ہواؤں میں چھپی ہوئی خنکیاں اپنا چہرہ دکھلاجاتی ہیں اور برف ریزے یہ قطرے مہین سے کبھی ہاتھو ں پر آن گرتے ہیں اور کبھی ہونٹوں پر ایک قطرہ گر کر اپنی طرف سے طمانیت کا احساس دلا تا ہے کہ روزے تو اچھے گزر گئے اب آپ کی عید بھی اچھی گزرے۔بلکہ ان دنوں سایہ دار درختوں کے بیچ میں ہو کر آنے والی سڑک تو او رٹھنڈی ہونے لگی ہے۔ اتناکہ بائیک پر ہوں تو رفتار آہستہ کرناپڑتی ہے تاکہ سینے کو ہوا نہ لگ جائے۔پھرکون جا کر کورونا کے ٹیسٹ کرواتا پھرے گا کیونکہ انھیں دنوں تین سال پہلے کورونا کا لاک ڈاؤن تھا اور لوگ گھروں میں مقید و نظر بند ہو چکے تھے۔اس ٹھنڈی سڑک پر تو تیز چلنے والی ہوا میں ایک درخت بھی گر چکا تھا۔جس کے گرد لوگ جمع تھے۔ کوئی شاخیں کاٹ رہا تھا اور کوئی درخت کے تنے کی لالچ میں کہ گھر لے جائے اور سوئی گیس کی اس نایاب صورت میں بطور ایندھن جلائے او رکام چلائے۔سرد موسم اُداسیوں کے موسم ہوتے ہیں۔ یونہی بے کلی کی رُت ہوتی ہے۔ مگر چونکہ روزے ہیں کھانا پینا نہیں ہوسکتا مگر اس برفیلی رُت کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں کہ بندہ ان دنوں میں اپنی اپنی پسندکی چیزیں کھاتا پیتا ہے۔مگر جب تک موسم مہربان ہے اس کی سخاوت سے دامن بھر لو پھر یہی آب وہوا ہوگی اور آنے والے تین مہینوں میں اگست کے آخر تک گرمی جو بڑھے گی‘ سو جو مزے اس وقت ہیں موسم سے کشید کر لو وگرنہ یہ موسم چلے گئے تو ہم فریاد ہی کر سکتے ہیں یا ان کو یاد ہی کر سکتے ہیں اور جلتے کڑھتے ہوئے مزید کیا کر سکتے ہیں۔یہ اُداسیوں کے موسم یونہی رائیگاں نہ جائیں۔کسی یاد کو پکارو کسی دردکو صدادو“ فراز کے شعر بر موقع یاد آگئے ہیں۔”وہ کہانیاں ادھوری جو نہ ہو سکیں گی پوری۔انھیں میں بھی کیوں سناؤں انھیں تم بھی کیوں سناؤ“۔”یہ جدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں۔جو گیا وہ پھر نہ آیا میری بات مان جاؤ“۔ابھی موسم کی جولانیاں جاری ہیں۔ کاش یہ موسم اسی طرح اپنی روانی میں ساکت ہو جائیں۔