چین کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پر امریکہ کی پریشانی

بیجنگ میں ایران اور سعودی عرب کے وزراء خارجہ کی حالیہ میٹنگ پر امریکہ سیخ پا ہے وہ اس بات  پر سخت پریشان ہے کہ چین کا مشرق وسطیٰ کی سیاست میں  دن بہ دن اثرو رسوخ کیوں بڑھ رہا ہے۔ماضی میں  مختلف جاری تنازعات  سے امریکہ اور اسرائیل فائدہ اٹھا رہے تھے ایران اور سعودی عرب کی قربت سے یہ تنازعے اب دم توڑ رہے ہیں دنیا میں اب چین کی قیادت میں ایک نیا گروپ معرض وجود میں آ رہا ہے کہ جس میں روس اور سعودی عرب اور دیگر کئی ممالک شامل ہیں اس گروپ میں کئی افریقی ممالک بھی شامل ہوں گے کیونکہ سی پیک جیسے عالمی سطح کے معاشی معاہدوں سے چین نے دور افتادہ ترقی پذیر ممالک اور ان کے عوام کے دل جیتے ہیں۔ حال ہی میں فرانس کے صدر نے اپنے دورہ  چین کے دوران چین سے درخواست کی کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ رکوانے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل میں بھی چین اور ایران ہماری مددکر سکتے ہیں کہ جو ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے۔ ایران نے تو اپنی حدود میں اس پائپ لائن کو بچھا دیا ہے پر پاکستان مالی مشکلات کی وجہ
 سے اپنی حدود میں اس پائپ لائن کو ابھی تک بچھا نہیں سکا۔ اگر یہ پائپ لائن فنکشنل ہو جاتی ہے تو اس سے پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ چین نے جس طرح سعودی عرب اور ایران  کے درمیان معمول کے تعلقات از سر نو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اسی طرح پاکستان کے عوام کی بھی خواہش ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھی وہ اپنا سیاسی اثرورسوخ استعمال کرے جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا کا امن خطرے میں پڑا ہواہے۔موسمیاتی تبدیلی نے وطن عزیز میں سال رواں میں اپنا جوبن دکھایا ہے جس کا بین ثبوت موسم سرما کا لمبا دورانیہ ہے کہ جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔امسال تو اس ملک
 نے بہار کا موسم دیکھا ہی نہیں۔ اب تک محکمہ موسمیات نے موسم کے بارے میں جتنی پیشگوئیاں کی ہیں وہ درست ثابت ہوئی ہیں۔ لہٰذا حکام کو اس کی اس پیشگوئی پر کان دھرنا چاہئے کہ امسال کڑاکے کی گرمی پڑے گی اور مون سون کی بارشیں بھی شدید قسم کی ہوں گی۔  تاہم سب سے زیادہ تشویشناک پیش گوئی یہ ہے کہ گرمی کی شدت سے گلیشیرز کے وسیع پیمانے پر پگھلنے کے امکانات ہیں کہ جس سے ملک میں سخت سیلابوں کا خدشہ ہے۔ حکام بالا کو بروقت پانی کی قدرتی گزرگاہوں سے ہر قسم کی رکاوٹ کو ہٹانا ضروری ہے اور ایسے پیشگی اقدامات اٹھانے کی بھی  ضرورت ہے کہ جن سے حتی الوسع سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تدارک کیا جا سکے۔