جامعہ پشاور ہڑتال کا ڈراپ سین

 جامعہ پشاور میں اساتذہ،کلاس تھری، کلاس فور اور سینیٹری ورکرزکی نمائندہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی(جیک)کے زیر اہتمام ڈیڑھ ماہ سے جاری ہڑتال کا ڈراپ سین ہوگیا ہے۔ ہڑتال کے اس اچانک خاتمے پر سب سے ذیادہ خوشی اور اطمینان کااظہار طلباء اور ان کے والدین کی جانب سے کیا جارہا ہے کیونکہ ایک دودن قبل تک نہ تو اس احتجاج کے خاتمے کے آثار نظر آ رہے تھے اور نہ ہی فریقین اپنے اپنے موقف میں کسی لچک کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ نظر آتے تھے لیکن اب فریقین کی جانب سے اچانک جس سیاسی بلوغت اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا گیا ہے یہ اسی طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ فریقین نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے پر آمادہ ہوگئے بلکہ ایک دوسرے کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے ہڑتال کے خاتمے اور ایک دوسرے کوسننے اور احتجاج کرنے والوں کے مطالبات کوبھی ماننے پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔واضح رہے کہ مفاہمت کی ان تمام کاوشوں میں بنیادی کریڈٹ صوبے کے گورنر حاجی غلام علی کوجاتا ہے جنہوں نے بطور چانسلر فریقین پر کوئی غیر ضروری دباؤ یا غیر سیاسی انتظامی احکامات نافذ کرنے کی بجائے پختون روایات کے مطابق جرگے اور بطور ایک سیاسی قائد معاملات کو افہام وتفہیم اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کادوراندیشانہ راستہ نکالا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ہڑتال کے خاتمے اور مطالبات کے حوالے سے ایک اہم اجلاس گزشتہ روز گورنر ہاؤ س پشاور میں ہوا   جس میں پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن (پیوٹا)کے صدر ڈاکٹر عزیر کے علاوہ کمشنرپشاور، محکمہ اعلیٰ تعلیم اور دیگر متعلقہ حکام بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر عزیر کے مطابق گورنر، چیف سیکرٹری اور محکمہ اعلیٰ تعلیم کے حکام نے مطالبات پورے ہونیکی یقین دہانی کرائی ہے جس پر ہڑتال ختم کرنیکا اعلان کیاگیا۔تفصیلات کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ اساتذہ کے مطالبات کے حوالے سے سنڈیکیٹ کا اجلاس طلب کریگی، یونیورسٹی کے سکیورٹی سپروائزر قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری کی جائے گی، یونیورسٹی کے مسائل سنڈیکیٹ اور سینیٹ اجلاس میں حل ہوں گے، ڈیڑھ ماہ سے جاری اس ہڑتال کا خاتمہ نہ تو کسی کی جیت ہے اور نہ ہی یہ کسی کی شکست ہے بلکہ اس کا سب سے زیادہ نقصان طلباء کے قیمتی وقت کے ضیاع کی صورت میں ہورہا تھا یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ صوبے کی بعض دیگر سرکاری جامعات کی طرح پشاوریونیورسٹی پر پچھلے کچھ عرصے سے نہ صرف 769 ملین کا قرضہ تھابلکہ یہ یونیورسٹی اپنے سٹاف کوتنخواہیں دینے کے قابل بھی نہیں تھی لیکن پچھلے دو ڈھائی سالوں کے دوران موجودہ وائس چانسلرنے یونیورسٹی کی بہتری کیلئے جو اقدامات اٹھائے ہیں ان کی بدولت یونیورسٹی کسی حد تک نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کے قابل ہوگئی ہے کسی حد تک خسارے سے نکلنے کی راہ پر بھی گامزن ہوچکی ہے نتیجتاً اس اچھی پرفارمنس پر ہائر ایجوکیشن کمیشن اور صوبائی حکومت نے یونیورسٹی کو خصوصی گرانٹس بھی دی ہیں‘ لہٰذا اب جب فریقین گورنر کی مداخلت پر ہڑتال کے خاتمے اورہڑتال کا باعث بننے والے مسائل کو حل کرنے پرمتفق ہوگئے ہیں توامید کی جانی چاہئے کہ معزز فریقین آئندہ کوئی بھی ایساقدم نہیں اٹھائیں گے جس کاخمیازہ نوجوان نسل کو ان کے تعلیمی حرج کی صورت میں برداشت کرنا پڑے۔