سست شرح نمو

ادارہ برائے شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کی گیارہ بڑی صنعتوں کی پیداوار میں قریب 60 فیصد کمی آئی ہے۔ اِس سلسلے میں گزشتہ سال (دوہزاربائیس) کے ماہ فروری کا موازنہ رواں سال (دوہزارتیئس) کے ماہئ فروری سے کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کے شعبے کی پیداواری کارکردگی میں گراوٹ کی وجہ سے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) اور روزگار کے مواقع متاثر ہوئے ہیں۔ صنعتی پیداواری گراوٹ کے سبب صرف آٹھ ماہ میں قریب چھ فیصد جی ڈی پی کا نقصان غیرمعمولی ہے جس کی وجہ خام مال اور اشیا ء کی فراہمی کا نظام (سپلائی چین) بھی خلل کا شکار ہوا ہے۔ صنعتوں کی پیداواری کمی کی وجہ بجلی و گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور پاکستانی روپے (کرنسی) کی قدر میں کمی جیسے بنیادی محرکات شامل ہیں۔ سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ صنعتی پیداوار میں یہ کمی وسیع تر معاشی سست روی کی عکاسی کرتی ہے جس کے آنے والے مہینوں میں جاری رہنے کی توقع ہے۔ اس کا ثبوت آٹوموٹو‘ سیمنٹ اور سٹیل سے متعلق مصنوعات کے علاوہ ٹیکسٹائل اور کپڑوں کی برآمدات میں بھی کمی آئی ہے اور اِس پوری صورتحال سے متاثرہ ادویہ ساز کمپنیاں بھی ہیں‘ جن کے بحران سے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اِسی طرح زرعی شعبے میں بھی ’سست شرح نمو‘ کے اشارے مل رہے ہیں۔ رواں برس کپاس کی فصل گزشتہ برس کی فصل کے مقابلے میں 34فیصد کم ہے اور گندم کی پیداوار کے اہداف بھی حاصل نہ ہونے کا خدشہ ہے۔ اِس پوری صورتحال کی وجہ سے اشیا و اجناس درآمد کرنا پڑیں گی جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر اضافی دباؤ پڑے گا اور زرمبادلہ کی شرح میں مزید گراوٹ کی پیشگوئی کی جا رہی ہے۔ نتیجتاً کثیر الجہتی قرض دہندگان نے ’جی ڈی پی‘ کی شرح نمو کی چار سے چھ فیصد کے درمیان ہونے اور بیروزگاری کی شرح میں سات فیصد اضافے کا ذکر کیا ہے۔ کچھ ماہرین اقتصادیات نے خبردار کیا ہے کہ ملک کو رواں مالی سال میں منفی نمو اور دس فیصد تک بے روزگاری جیسی تاریخ کی بلند ترین شرح کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔معاشی مندی کے لئے کوئی ایک محرک یا فریق ذمہ دار نہیں۔ مہنگائی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے لیکن پاکستان میں اِس کی شدت اور قومی پیداوار پر اثر اِس لئے زیادہ پڑ رہا ہے کیونکہ عوام کی قوت خرید کم ہے۔ دیگر ممالک میں فی کس آمدنی زیادہ ہونے کی وجہ سے مہنگائی کا منفی اثر اِس قدر نہیں پڑا۔ دوسری اہم وجہ پاکستان کی برآمدات کا شعبہ درآمد شدہ خام مال استعمال کرتا ہے جس کی وجہ سے اِس کی مصنوعات برآمدات کے قابل نہیں ہوتیں اور مقامی مارکیٹ کے مطابق بھی اِن کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔ اگر درآمدی اشیا کی گھریلو طلب کم کر بھی دی جائے تب بھی یہ مسئلے کا حل نہیں کیونکہ روزگار اور کاروباری سرگرمیاں بھی پیداواری تناسب سے کم ہوتی چلی جائیں گی چونکہ عام انتخابات میں چند ماہ باقی ہیں اور اس بات کا امکان نہیں کہ صنعتی پیداوار کو بڑھانے یا صنعتوں کو مشکل سے نکالنے کے لئے قومی لائحہ عمل تشکیل دیا جائے گا لیکن اگر صنعتوں اور معیشت کو فوری توجہ نہ دی گئی تو نئی آنے والی حکومت کے لئے مشکلات رہیں گی جبکہ ’انتہائی پولرائزڈ سیاسی ماحول‘ میں وہ تکنیکی معاشی دیوالیہ (ٹیکنیکل ڈیفالٹ) کی وجہ سے غربت کی شرح میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ملک کو باضابطہ دیوالیہ (ڈیفالٹ) سے بچانے کے لئے گھریلو طلب اور درآمدات میں کمی کرنا پڑے گی۔ عوام غیرضروری یا ضرورت سے زیادہ اشیاء کی خریداری سے گریز کریں اور اگر قومی سطح پر سادگی کی حکمت عملی اپنائی جائے تو بھلے ہی ’بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)‘ سے بیل آؤٹ کے طور پر قرض مل بھی جائے لیکن معاشی بہتری کے لئے اپنے وسائل کو ترقی دینا ہوگی اور قومی سطح پر طرز زندگی کو سادگی سے بدلنا ہوگا۔ موجودہ معاشی حالات میں یہی سست شرح نمو سے نمٹنے کی قابل عمل صورت ہے۔