عید کارڈ 

ہمارا زمانہ گزر گیا ہے۔مگر ہم خدا کا شکر ہے کہ موجود ہیں۔پھر جن کو ماضی کے اس دور کا کچھ پتا نہیں ان کے لئے ہم خودگواہی دیتے  ہیں۔عید پر شادی کارڈ دینے کی رسم بہت پرانی بھی تو نہیں۔اب جو نئی پود ہے وہ تو کمپیوٹر کی سنگت میں پل کر جوان ہوئی ہے۔جنھوں نے عید کارڈ کا سنہری دور نہیں دیکھا۔مگر ہماری نسل کے نمائندوں کو اس بارے میں بھر پور جانکاری حاصل ہے کہ عید کے موقع پر دوستوں رشتہ داروں کو عید کارڈ کے لین دین میں کتنا لطف ہوا کرتا تھا۔ مگر مزا سرور کوئی بھی ہو اس کی اپنی ایک ایکس پائری ہو تی ہے۔ہر رسم ہر دستور رواج نے اپنے وقت پر ختم ہونا ہوتا ہے۔کیونکہ آگے جدید سائنس کی روشنیو ں میں پل کر جوان ہونے والی مختلف اقسام کی بجلیاں آرہی ہوتی ہیں۔آج تو عید کارڈ کیا شادی کارڈ کا زمانہ بھی آہستہ رفتار سے مگر گزر رہا ہے۔عنقریب شادی بیاہ کے موقع پر شادی کارڈ دینے کی ریت کی بساط بھی لپیٹ دی جائے گی۔کیونکہ کمپیوٹر تو کیا پرانی چیز ہو گیا ہے اب تو موبائل فون نے ایک اژدہا کی طرح چکاچوند والی ایجادات کو سموچا ہ ڑپ کر لیا ہے۔کوچی بازار،مینا بازار، کریم پورہ اور ہشت نگری ساتھ رامداس اور سرکی پھر کوہاٹی دروازہ اور قصہ خوانی بازار، وہاں صدر اور یونیورسٹی کے علاقوں اور اندرونِ شہر دور تک چلے جائیں منسلک ہر بازار میں عید سے ہفتہ دس روز قبل عید کارڈوں کے سٹال لگ جایا کرتے تھے۔دھڑا دھڑ عید کارڈ فروخت ہوتے تھے۔نت نئے اور مہنگے سستے ہر قسم کے عید کارڈ میزوں پر سجے ہوتے تھے۔ہم تو جوانی اور بیروزگاری کے عالم میں تھے اتنا جیب خرچ نہیں رکھتے تھے مگر دو چار عید کارڈ خرید ہی لیتے تھے۔ پھر والدہ بھی رقم دیتیں او رہم اپنی خالہ اور ان کے گھر والوں کے لئے یہی کارڈ کراچی بھجوانے کے لئے کوچی بازار کی سمت نکل جاتے۔اپنے پیارو ں کے لئے خریدنا تو ایک طرف بلکہ خود سلوشن ٹیپ لے کر خریدے ہوئے عید کارڈوں میں نئے آئیڈیاز تلاش کر کے ڈیزائنگ کرتے اور فخر سے دوسروں کو دکھلاتے۔ پھر ڈاکخانہ والوں کی طر ف سے بھی آخری تاریخ کا اعلان ہو جاتا کہ فلاں تاریخ سے قبل اپنے اپنے عید کارڈ دوسرے شہروں کو بھجوانے کے لئے داخلِ دفتر کروا دیں۔ڈاک ٹکٹ کا اچھا خاصا خرچہ آتا۔کبھی اپنی ہوشیاری کر کے ایک ہی پارسل بناکر ہر بندے کامختلف عید کارڈ اسی میں ڈال کر ٹکٹوں کا خرچہ بچا لیتے۔دیدہ زیب کارڈ ہوتے جن میں کم قیمت بھی اور بیش قیمت بھی ہوتے۔ مگر ہم مہنگے والے عید کارڈ خریدنا چاہتے کیونکہ وہ بڑی مہارت او رنفاست سے اس طرح ڈیزائننگ کئے گئے ہوتے کہ کھلتے تو جیسے رنگوں کی ایک چھتری سی کھل جاتی گویا ایک پھول ہوتا جو کھل کر اپنی کلیاں بکھیر دیتا۔لیکن معمولی حیثیت کے کارڈ تو خریدے جاسکتے۔مگر ہم مہنگے والے عید کارڈ صرف دیکھ کر دل میں ایک حسرت جگا کر چلے آتے۔ اس لئے کہ جن پیارو ں کو ہم گراں قیمت کارڈدینا چاہتے گویا ان کو اپنی محبت اور خلوص کاثبوت اس قیمتی کارڈ کے ذریعے پہنچانا چاہتے عید کارڈ بھیجنا اتنا ضروری ہوتا تھاکہ گراں عید کارڈ کے بغیر جیسے کسی کے بہت زیادہ خلوص کا اظہار ہو نہیں سکتا تھا۔حالانکہ اخلاص کے لئے پہلے تو اظہار ضروری نہیں ہوتا پھر خلوص کے بتلانے میں عید کارڈکہاں سے آنے لگا۔اب تو وقت نے وہ اُڑان بھری ہے کہ دودھ کا دودھ او رپانی کا پانی کر دیا ہے۔جو چیزیں سچی اور پر خلوص تھیں وہ فی زمانہ متروک ہوگئی ہیں اور جو نئی آنے والی آئی ہیں وہ معاشرت میں زیادہ کھپ گئی ہیں۔سائنسی ایجادات کچھ اس انداز سے ہمارے عالمی معاشرے میں حملہ آور ہوئی ہیں کہ انھوں نے انسانی رہن سہن کے پرانے انداز شہریوں کے ہاتھو ں سے چھین کر کملائے ہوئے پھولوں کی طرح پاؤں تلے روند ڈالے ہیں۔اس سائنسی غلبہ کے آگے ہم لوگ بے بس ہیں۔ اگر نئی چیزیں استعمال نہ کریں تو ہماری ضرورتیں بھی پوری نہ ہوں گی اور الٹا ہم خودپسماندگی کے شاہکار گردانے جائیں گے۔سو بیرونی سائنسی یلغار اسی کانام ہے۔مگر میں کبھی سوچتا ہوں تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ہم ترقی کی طرف جا رہے ہیں یا ہمارا رخ زوال کی جانب ہے۔کیونکہ ہر بندہ نئے نویلے اندازمیں اپنے موبائل میں کمپیوٹر ایلیکیشن استعمال کر کے اب تو عید کارڈ ہوں یا شادی کارڈہوں بہت خوبصورتی سے بناکر آن کے آن میں امریکا لندن او رکینیڈا بھیج کر فوراً سے پہلے اس کا جواب بھی حاصل کر لیتاہے۔زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔