(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
پروفیسر اقبال نعیم رحمانی بھی وفات پاگئے ایک ایسے موذی مرض کا شکار ہوئے جس کا علاج ابھی تک کوئی بھی دریافت نہیں کر سکا اقبال نعیم رحمانی سے میری شناسائی تیس چالیس سال پرانی ہے اقبال ریڈیو پاکستان پشاور میں اناؤنسر تھے بڑی گرج دار آواز پائی تھی باتیں بھی کرتے تو یوں لگتا خبریں پڑھ رہے ہیں میرا اس زمانے سے ریڈیو پاکستان آنا جانا تھا میرے دوست اور کلاس فیلو سید عبدالجبار ریڈیو میں پروڈیوسر تھے کبھی کبھار ان سے ملنے چلا جاتا تھا،پھر تقریریں کرنی اور فیچر لکھنے شروع کر دیئے‘ اقبال نعیم سے میری ملاقات وہیں ہوتی ہنس مکھ‘ ملنسار او خوش مزاج آدمی تھے جوں ہی آمنا سامنا ہوتا ان کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ مزید کھکھلا اٹھتی پھر مزاح ولطافت کی پھواریں بکھرنے لگتیں۔اقبال نعیم ٹپ ٹاپ سوٹڈ بوٹڈ آدمی تھے خوش ذوق و خوش سمارٹ‘ خوش وضع اور اپنے وزن اور جسم پر قابو رکھے ہوئے متوازن شخصیت کے مالک تھے،لہجے میں بے پناہ شائستگی پائی جاتی تھی پورے تیقن کے ساتھ گفتگو کرتے انسان کا احترام بطور انسان کرتے اور ہر وقت آمادہ تعاون نظر آتے‘ اقبال نعیم سیلف میڈ آدمی تھے بے انتہا محنتی اور جفاکش‘ ملازمت کیساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرکے اپنی اہلیت میں اضافہ کرتے رہتے انہوں نے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے ایم اے کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا اور گورنمنٹ کالج مردان میں لیکچرار ہوگئے یوں ان کے اور میرے تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوا میں اس وقت صوابی کالج میں پڑھاتا تھا ایک دن کیا ہوا کہ اقبال نعیم پریشان حالی کی کیفیت میں میرے پاس پہنچے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں میں نے کہا خیر باشد‘ کہا غضب ہوگیا میرا تبادلہ مردان سے صوابی ہوگیا ہے اور آپ مردان آرہے ہیں،میں ہنسنے لگا رحمانی صاحب نے کہا میری جان
نکلی جارہی ہے اور آپ ہنس رہے ہیں بات یہ تھی کہ رحمانی صاحب مردان میں اچھی طرح اپنے آپ کو سیٹ کر چکے تھے گھر لے لیا تھا اور ارادہ یہی تھا کہ بقیہ زندگی مردان میں ہی گزارنی ہے اپنے کام اور پیشے سے کیسی لگن اور لگاؤ تھا کہ بس۔ ملازمت کیلئے مردان گئے وہیں کے ہوگئے وہیں پہ مرے اور وہیں دفن ہوئے خیر میں نے کہا کوئی بات نہیں آیئے افسران بالا کے پاس چلتے ہیں۔ ہم پشاور پہنچے اور ڈائریکٹر تعلیمات سے ملے میرے مہربان اور میرے استاد ڈاکٹر طاہر فاروقی کے چھوٹے بھائی پروفیسر احسن فاروقی اس زمانے میں ڈپٹی ڈائریکٹر تعلیم تھے ڈائریکٹر تعلیم پروفیسر سیٹھی رخصت پر تھے اور چند دنوں کیلئے چارج فاروقی صاحب کے پاس تھا ایک دن انہوں نے بیٹھے بٹھائے مجھے صوابی سے مردان اور رحمانی صاحب کو مردان سے صوابی ٹرانسفر کردیا مجھے دیکھتے ہی کہا تمہیں پشاور کے قریب لا رہا ہوں نظام سقہ ہوں ایک دن کی بادشاہی ملی تو سوچا تمہیں فائدہ پہنچا دوں۔ میں نے کہا حضرت میں تو چھڑا چھانٹ آدمی ہوں آپ نے رحمانی صاحب پر قیادت ڈھا دی ہے فاروقی صاحب مسکرانے لگے کہا دعوت ہوگی میں نے کہا حضرت ضرور ہوگی آج ہی ہوگی، رحمانی صاحب کو واپس مردان ٹرانسفر کردیں کیا معصوم اور سادہ زمانہ تھا رشوت سفارش دھونس دھمکی سازش کے چکر نہ تھے فاروقی صاحب نے اسی لمحے آرڈر کینسل کرکے حکم نامہ ہم دونوں کو تھما دیا، چائے بھی پلائی اور جھاڑ بھی‘ رحمانی صاحب نہال ہوگئے۔ اسکے بعد ان کی محبت وخلوص میں بے
پایاں اضافہ ہوگیا جب ملتے اتنے پیار سے گلے لگاتے کہ کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جاتی شریف النفس انسان تھے اس معمولی سی بات کو زندگی بھر نہ بھولے جب ملے یہی بات کی رحمانی صاحب مستقل مزاج قسم کے یکسو آدمی تھے کشتیاں جلا ایک جگہ ٹھہر کر کام کرنے والے آدمی‘ مردان شہر اور کالج کو اپنا مرکز نگاہ قرار دے ڈالا اس سے باہر نکلنا نہ اس سے آگے سوچنا‘ شب و روز اس فکر میں غلطاں کہ اس کالج کو کیسے بہتر سے بہتر بنایا جائے کالجوں میں عموماً پروفیسر صاحبان اضافی ذمہ داریوں سے دور بھاگتے ہیں مگر رحمانی صاحب گویا سارے کالج کا بوجھ کاندھوں پر اٹھانے کو تیار تھے‘ایک ٹھٹھرتی سردی کی صبح کو انہیں دیکھا کہ محکمہ بحالیات کے دفتر میں کھڑے ہاتھوں کو پھونک پھونک کے گرم کر رہے ہیں پوچھا حضرت خیریت‘ کہا خیریت کہاں‘ کالج کے ہاسٹل وغیرہ کا مقدمہ ہے اور پیشگی بھگتانے آئے ہیں اقبال نعیم فرض شناسی‘ دیانت داری اور بے لوث خدمت کا جیتا جاگتا نمونہ تھے اتنے شوق اور دلچسپی سے پڑھاتے تھے کہ طلباء کو اپنا گرویدہ بنا لیتے طلباء کے ذاتی مسائل میں دلچسپی لیتے انکے ساتھ بھاگ دوڑ کرتے وقت پر کلاس لیتے‘ اپنا کورس مکمل کراتے‘ طلباء میں علم حاصل کرنے کا شوق پیدا کرتے کتابیں پڑھنے کے شوقین تھے جہاں اچھی کتاب ملتی کالج لائبریری کے لئے خریدنے کی کوشش کرتے۔رحمانی مجھے اس وقت بہت یاد آرہے ہیں ان تیس سالہ انسانی تعلقات میں ایک بات ایک لمحہ ایسا نہیں جس میں تلخی‘ تندی ور بدمزگی کا تصور ملتا ہو پیار‘ مٹھاس اور بھل منساہٹ کے خوشگوار جھونکے ہی ہر طرف سے آتے دکھائی دیتے ہیں خود غرضی اور کام چوری کے اس دور میں ان کا وجود نیک‘ صداقت‘ شرافت اور بے لوث خدمت کا ایک رول ماڈل تھا انہیں کبھی اس بات کا شاکی نہیں دیکھا کہ تنخواہ کم ہے مہنگائی زیادہ ہے یا دوسرے لوگ کام نہیں کر رہے پرنسپل خراب ہے‘ لڑکے بدتمیز ہیں معاشرہ تباہ ہے‘ رحمانی صاحب کو ان چیزوں سے سروکار نہ تھا انہیں تو چراغ جلانا تھا محبت‘ خدمت اور دیانت کا انہیں تو اپنی باری بھرنی اور اپنا کردار ادا کرنا تھا۔