اُنیس سو اکیاون میں جب ’ایشین گیمز‘ کا افتتاح ’نئی دہلی (بھارت)‘ میں ہوا تھا تب پاکستان نے اِن براعظمی کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ نہیں لیا تھا لیکن 1954ء میں جب ایشیائی کھیل ’منیلا‘ ہوئے تو پاکستان کے کھلاڑیوں نے اِس دوسرے ایڈیشن میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ شاندار کارکردگی کا بھی مظاہرہ کیا اور مجموعی طور پر پانچ طلائی تمغوں سمیت 13 تمغے جیتے۔ آٹھ سال بعد 1962ء میں ایشین گیمز کا انعقاد ’جکارتہ‘ ہوا جس میں شریک پاکستان کے کھلاڑیوں نے ایک مرتبہ پھر ’بہترین کارکردگی‘ کا مظاہرہ کیا اور 28 طلائی تمغے جیتے۔ اِسی طرح جب ایشین گیمز کی انڈونیشیا واپسی ہوئی تو پاکستان نے ایونٹ کی تاریخ کی بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور صرف چار کانسی کے تمغے جیتے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ رواں سال کے اواخر میں چین کے شہر ہانگچو میں ہونے والے ایشین گیمز میں پاکستان کے کھلاڑیوں کی کارکردگی مزید خراب ظاہر ہو گی۔ یہ مقابلے سال 2022ء میں منعقد ہونا تھے لیکن کورونا وبا کی وجہ سے تاخیر سے ہو رہے ہیں اور جو 8 ستمبر سے 23 اکتوبر کے درمیان منعقد ہوں گے۔ کئی دیگر ممالک کے برعکس پاکستان ایشین گیمز کے انعقاد میں ہوئی تاخیر سے کتنا فائدہ اُٹھاتا ہے اِس بات کے امکانات کم دکھائی دے رہے اور کھلاڑیوں کی تیاری کے حوالے سے خبریں بھی زیادہ اُمید افزأ نہیں ہیں۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان کے کھلاڑی ایشین گیمز کی تاخیر سے انعقاد ہونے کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہیں گے اور جو اضافی بارہ ماہ کا وقت ملا ہے اُس سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکا ہے۔ سپورٹس حکام نے اولمپک کھیلوں کے بعد سب سے بڑے بین الاقوامی ملٹی سپورٹس ایونٹ کے لئے قومی کھلاڑیوں کو تیار کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ پاکستان سپورٹس بورڈ (پی ایس بی) نے ریسلنگ اور ویٹ لفٹنگ جیسے کھیلوں کے لئے تربیتی کیمپ لگانا بھی ضروری نہیں سمجھا جو کسی بھی کھیل سے قبل لگائے جاتے ہیں اور اِسی کے ذریعے تیاری ہوتی ہے۔ کیا ہمارے کھلاڑی اُمید کرتے ہیں کہ وہ بنا تیاری ایشین گیمز مقابلوں میں اُتریں گے اور کامیاب ہو جائیں گے!؟ یہ خودفریبی اُور خود اعتمادی کی انتہا ہے لیکن بہرحال تمغے جیتنے کے امکانات موجود ہیں۔ اِس صورتحال کا اہم و قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ ’پی ایس بی‘ اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے میں ناکام رہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اہم بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلے کے لئے ٹھوس تربیتی پروگرام نہیں بنایا گیا۔ تربیتی کیمپ کے لئے مئی میں کوئٹہ میں ہونے والے نیشنل گیمز کے بعد شروع ہونے کی تاریخ دی گئی ہے جو بہت ہی زیادہ تاخیر ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ ایتھلیٹ پہلے قومی کھیلوں اور بعد میں چند ہفتوں کی تربیت کے بعد بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیں گے جہاں اُنہیں چین کے علاوہ جاپان اور کوریا جیسے اعلی تربیت یافتہ کھلاڑیوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ حقیقت پسندانہ خدشات یہ ہیں کہ ایک بار پھر قومی دستہ ایشین گیمز کے چند ہی تمغوں کے ساتھ وطن واپس آئے گا۔ پاکستان میں کھیلوں کی خاطرخواہ سرپرستی نہیں ہو رہی اور یہ عرصہ دراز سے نظرانداز ہیں۔ مناسب وقت ہے کہ اِس حکمت عملی کی اصلاح کی جائے اور بہت ضروری ہو چکا ہے کہ مثبت تبدیلیاں لانے کے لئے عملی اقدامات بھی کئے جائیں لیکن حالات و واقعات سے ایسا ہوتا ناممکن دکھائی دے رہا ہے جو بدقسمتی کی بات ہے۔ قومی فیصلہ ساز پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ قومی کھیلوں کے بجٹ میں کمی کریں گے اور ظاہر ہے کہ جب بجٹ میں کمی ہوگی تو کھیلوں کی بہتری کی اُمید بھی نہیں رکھنی چاہئے۔ اِس قسم کی عدم دلچسپی پاکستان میں کھیلوں کے مستقبل کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی سے کمی آ رہی ہے‘ کھیلوں کی ترقی اور اِن کی جاری تربیت کے لئے فراہم کردہ مالی وسائل میں کمی کھیلوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوسکتا ہے۔