پاکستان کرکٹ ٹیم میں بہتری کے آثار

مکی آرتھر کا شمار پاکستان کے ا ن چند غیر ملکی کوچز میں ہوتا ہے جن کی زیر نگرانی گرین شرٹس نے کئی کامیابیاں سمیٹیں، اس وقت وہ انگلش کاؤنٹی سیزن میں مصروف ہونے کی وجہ سے پاکستان ٹیم کے ساتھ ہیڈ کوچ منسلک نہیں ہورہے البتہ بطور ڈائریکٹر ان کے ہاتھ میں ٹیم کی کمان ہو گی۔یاد رہے جب 2017 ء کی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی جس میں پاکستان نے کامیابی سمیٹی، اس ٹیم کے ہیڈ کوچ بھی مکی آرتھر ہی تھے۔ انہی نے احمد شہزاد، عمر اکمل اور وہاب ریاض کو ناقص کارکردگی کی وجہ سے ٹیم سے باہر کیا جب کہ فخر زمان، شاداب خان، حسن علی اور شاہین شاہ آفریدی جیسے کئی نئے کھلاڑیوں کو ٹیم میں موقع دیا۔امکان ہے کہ سابق کوچ، ٹیم کے کپتان بابر اعظم کو ان کی ان غلطیوں سے آگاہ کریں گے جن کی وجہ سے پاکستان کو کئی میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے سامنے ٹیسٹ کیس کے طور پر نیوزی لینڈ کے خلاف تیسرا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ ہوگا جس میں گرین شرٹس کو چار رنز سے شکست ہوئی تھی۔جب 2021 ء کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں محمد رضوان نے زخمی ہونے کے باوجود شرکت کی تھی تو ان کے مداحوں کی تعداد دگنی ہوگئی۔ ہر کسی نے اس اہم میچ میں ان کی شرکت پر انہیں داد دی تھی تاہم اس سیریز میں ا ن کی فٹنس پر سوالیہ نشان ہونے کے باوجود کپتان بابر اعظم ان کو ڈراپ کرنے کے حق میں نہیں تھے۔نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں محمد رضوان نے ایک آسان اسٹمپ چھوڑا جب کہ دوسرے میچ کے دوران وہ فیلڈنگ کے دوران زخمی ہوکر گراؤنڈ سے باہر چلے گئے تھے اور متبادل کیپر محمد حارث نے وکٹ کیپنگ کے فرائض انجام دئیے۔ماہرین کے مطابق ایسے میں اگر تیسرے میچ میں محمد حارث کو بطور وکٹ کیپر بلے باز موقع دیا جاتا تو بہتر ہوتا لیکن کپتان اور مینجمنٹ نے محمد رضوان کو ہی فائنل الیون میں شامل کیا جو بیٹنگ کے ساتھ ساتھ کیپنگ میں بھی آف کلر نظر آئے۔محمد رضوان صرف پاکستان کے وکٹ کیپر ہی نہیں، وہ ٹیم کے اوپننگ بلے باز بھی ہیں‘ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب اسکواڈ میں فخر زمان، صائم ایوب اور محمد حارث جیسے جارح مزاج اوپنرز موجود ہیں، بابر اعظم کا مسلسل ٹاپ آرڈر میں کھیلنے کا فیصلہ ان کے اور ان کے پارٹنر محمد رضوان کے لئے تو اچھا ہوسکتا ہے لیکن ٹیم کے لئے نہیں۔ماہرین کے مطابق جب محمد رضوان اور بابر اعظم فیل ہوتے ہیں، تو مڈل آرڈر میں موجود بلے باز بھی پریشر میں آجاتے ہیں اور ایسا ہی ہوا سیریز کے تیسرے میچ میں جس میں پاکستان کو شکست ہوئی۔آٹھویں پاکستان سپر لیگ میں اپنے 'نو لک' شاٹ سے شہرت پانے والے صائم ایوب اس وقت قومی ٹیم کا حصہ تو ہیں لیکن انہیں مڈل آرڈر میں بیٹنگ کیلئے بھیجا جارہا ہے۔ صائم ایوب ٹاپ آرڈر میں اپنی جارح مزاجی کی وجہ سے مشہور ہیں جس سے قومی ٹیم فائدہ نہیں اٹھارہی‘کچھ مبصرین کے خیال میں اگر صائم ایوب کو ٹاپ آرڈر میں کھلایا جائے تو نہ صرف پاکستان کو اچھا اور تیز آغاز مل سکتا ہے بلکہ ٹیم کوایک ایسا بلے باز مل سکتا ہے جو جدید طرز کی کرکٹ کھیلتا ہو۔ سیریز کے پہلے میچ میں مڈل آرڈر میں آکر بیس سالہ بلے باز نے47 رنز کی ذمہ دارانہ اننگز تو کھیلی لیکن باقی دو اننگز میں وہ صفر اور دس رنزہی بناسکے۔پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلے گئے تیسرے ٹی ٹوئٹی انٹرنیشنل میچ میں مہمان ٹیم نے کامیابی تو صرف چار رنز سے حاصل کی،لیکن ایک موقع پر لگ رہا تھا کہ افتخار احمد شاید پاکستان کو میچ جتوانے میں کامیاب ہوجائیں گے‘انہوں نے آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے 24 گیندوں پر 60 رنز بناکر اس کیوی بالنگ اٹیک کے آگے مزاحمت کی جس نے پاکستان کی پہلی 6 وکٹیں صرف 64 رنز پر گرادی تھیں۔