عید پر غریبوں کا خیال رکھیں 

کہتے ہیں ہمارے کروڑوں عوام غربت کی لکیر سے نیچے ہیں اگر سفید پوش ہو ں تو ڈھونڈے سے مل جاتے ہیں‘ سو آج عید کی خوشیوں میں ان کو بھی شریک کرلیں کیونکہ عید بھی تو صاحبِ حیثیت لوگوں کی ہوتی ہے وہ لوگ جو غربت کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں ان کیلئے تو آج کا دن بھی سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے ایک ہوتا ہے‘عید کے روز شہری جو زندگی کی خوشیوں پر قدرت رکھتے ہیں وہ تو ایک دوجے سے ملیں گے خوشی میں جھومیں گے سرشار ہوں گے کھائیں گے پئیں گے مگر وہ گھر جہاں گیس تو کیا لکڑی بھی جلانے کو نہ ہو جہاں گرمی کے موسم میں چولھوں پر برف جمی ہو‘ان کا خیال رکھیں اور ان تک پہنچ کر ان کو اپنے حصے میں سے کچھ خوشیاں کُتر کر دے آئیں کہ یہ مفلوک الحال لوگ کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرتے چپ کی چادر تان کر اپنے گھر کے اندھیروں میں گم ہوتے ہیں‘پہلی کے چاند کو تلاش نہ کریں بلکہ گلی محلے میں نکل جائیں اور اپنے ان بھائیوں اور شہریوں کے چاند جیسے چہروں کوتلاش کریں۔ان تک اپنی خوشیوں کی چہکار پہنچا دیں تاکہ وہ بھی شاخ پر پھدکتے ہوئے پرندوں کی چرچراہٹ میں ایک دوسرے سے اٹھکیلیاں کریں‘کیا عید کی خوشیوں پر ہمارے بچوں کا حق ہے اور انکے بچوں کا کوئی دخل نہیں۔بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں‘ان غریب بچوں نے اپنی مرضی سے تو ان غربت کدوں کا چناؤ نہیں کیا کہ اس غریب گھروں میں پیدا ہو کر غربت کے تھپیڑے سہیں گے۔جہاں چار دیواروں پر غربت بال کھولے سو رہی ہوتی ہے ان معصوموں کی شکلیں تو ہمارے بچوں سے زیادہ خوبصورت ہوتی ہیں‘پھر اس سمجھ بوجھ کے باوجود اگروہ آج کے دن بھی ان کم حیثیت لوگوں کی مدد نہ کر پائیں تو ان پر سوائے کفِ افسوس ملنے کے اور کیا کر سکتے ہیں۔کیوں نہ خیر خیرات کی رقم چپکے سے ان گھرو ں میں دے آئیں جو زندگی کی ضروریات پرقدرت نہیں رکھتے‘وہ روشن جبین والے خوبصورت خوب شکل اور حسین بچے جو کسی سے کم نہیں ہیں مگر کم اس لئے ہو سکتے ہیں کہ مقدر جب لکھے گئے تھے تو ان کے حصے میں غریبی والے گھرو ں کی چاردیواریاں لکھی گئی ہیں مگر یہ ہمارا امتحان ہے کہ ہم جو حیثیت والے ہیں دیکھیں ہم ان کیلئے کیا کرتے ہیں۔جب قدرت نے اپنے بچے دی ئے ہیں تو اسلئے کہ دوسروں کے بے کس بچوں پر رحم کیا جائے‘اپنے ماں باپ اور بہن بھائی دیئے ہیں تو اس لئے کہ دوسرے کے ان رشتوں کا بھی پاس کریں اور غور کریں کہ جیسے  ہمارے رشتے پیارے ہیں اسی طرح ان دیہاڑی دار مزدوروں کو بھی اپنے بچے اپنے بہن بھائی ماں باپ پیارے ہوں گے جن کیلئے انکے پاس ان عید کی پانچ چھٹیوں کے سبب بطورِ خوراک کچھ نہ ہوگاکیونکہ نہر والی پل پر مزدور صبح صبح رنگوں کے برش اور کرنڈی گرمالا لے کر بیٹھ جاتے ہیں تو عام دنوں میں بھی ان کو کام کاج نہیں مل پاتا‘ وہ لوگ بھی عید کے ان دنوں عید کی خوشیوں میں بھرپور شرکت نہ سہی مگر کسی طرح شریک ہو سکیں‘سو آئیے ان چہروں کو اپنے آس پاس ڈھونڈیں پھر یقین ہے کہ یہ لوگ دور دراز کہیں بسیرا کر کے نہیں بیٹھے ہوئے‘ یہ ہمارے بہت قریب ہیں او رآس پاس ہیں‘بس ذرا غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔